بھارت، شہریت قانون کے خلاف دہلی کی جامعہ میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

delhi uni clash
بھارت، شہریت قانون کے خلاف دہلی کی جامعہ میں شدید احتجاج، 100 سے زائد زخمی

نئی دہلی: بھارت میں نئے شہریت قانون کے خلاف مظاہروں میں شدت آگئی ہے اور دارالحکومت نئی دہلی کی مرکزی جامعہ میں اس بل کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کے استعمال سے 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔

غیرملکی خبررساں اداروں نے رپورٹ کیا کہ پولیس حکام کا کہنا تھا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ سمیت ہزاروں افراد نے غیر مسلموں کو شہریت دینے کے نئے قانون کے خلاف احتجاج کیا۔

پولیس حکام کا کہنا تھا کہ اس قانون کے خلاف تیسرے روز ہونے والا پرامن مظاہرہ اتوار کی دوپہر میں افراتفری میں تبدیل ہوگیا اور 3 بسوں کو نذرآتش کردیا گیا۔ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار چھنموئے بسوال کا کہنا تھا کہ جنوبی دہلی کے پوش علاقے میلی میں 6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

تاہم منتظمین طلبہ کے مطابق تشدد باہر کے افراد کی جانب سے کیا گیا، اس حوالے سے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس وقت ہے اور ہم نے یہ برقرار رکھا کہ ہمارے مظاہرے پرامن اور تشدد سے پاک ہیں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ہم ‘اس نقطہ نظر کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی پارٹی کے تشدد میں ملوث ہونے کی مذمت کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بھارت میں مسلم مخالف متنازع بل کے خلاف پر تشدد مظاہرے، 6 افراد ہلاک

دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں عمارتوں پر سیکولر انڈیا جیسے نعرے درج کیے گئے تھے جبکہ متعدد طلبہ نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو میں بتایا کہ پولیس کی جانب سے یونیورسٹی کی لائبریری میں آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے اور کیپس کے تمام دروازوں کو سیل کرنے سے قبل مظاہرین پر تشدد بھی کیا۔

اس بارے میں ایک طالب علم طفیل احمد کا کہنا تھا کہ ہما رے ساتھ مجرموں جیسا سلوک کیا گیا اور میں اپنی جان بچانے کے لیے کیپس سے فرار ہوگیا۔تمام واقعے سے متعلق شیئر کی گئی ویڈیوز میں یونیورسٹی کی لائبریری میں افراتفری کے مناظر کے ساتھ ساتھ پولیس کی جانب سے آنسو گیس کے شیل فائل کرتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ طلبہ میز کے نیچے بیٹھے اور باتھ روم کے اندر بند ہوگئے۔

ادھر جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اعلیٰ عہدیدار وسیم احمد خان کا کہنا تھا کہ پولیس زبردستی کیمپس میں داخل ہوئی، انہیں کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی جبکہ ہمارے اسٹاف اور طلبہ کو مارا گیا اور انہیں کیمپس چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

واقعے کے بارے میں اسپتال کے ترجمان فادر جیورج کا کہنا تھا کہ ہولی فیملی اسپتال سمیت قریبی اسپتالوں میں متعدد زخمی طلبہ کو لایا گیا، جہاں 26 طلبہ کو طبی امداد دی گئی۔قریبی الشفا ہسپتال میں طبی امداد حاصل کرنے والے ایک طالب علم مجیب رضا کا کہنا تھا کہ پولیس نے مجھے زمین پر گرا کر مارا جبکہ میرے دوستوں کو بھی نہیں بخشا۔

Related Posts