موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے جہاں پوری دنیا کو مختلف نوعیت کے چیلنج درپیش ہیں، وہاں اس کی کوکھ میں بچوں کے حوالے سے بھی ایک خاموش بحران پلتا دکھائی دے رہا ہے۔
یونیسیف کی “کلائمیٹ چینجڈ چائلد” کے عنوان سے جاری کردہ ایک حالیہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بچوں کے حوالے سے موسمیاتی خطرے سے متعلق 2021 میں کیے گئے ایک سروے کے نتائج واضح کرتے ہیں کہ صورتحال خاصی سنگین ہے۔ رپورٹ میں یہ چونکا دینے والا انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب بچے موسمیاتی بحران کے اثرات کی وجہ سے مختلف حوالوں سے سخت خطرے میں ہیں۔ یہ تشویشناک اعدادوشمار پاکستانی بچوں کی بھی معتدبہ تعداد کا احاطہ کیے ہوئے ہیں، جن کیلئے مناسب نشوونما کے نقطہ نظر سے ہم آہنگ امکانات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔
اس بحران کا ایک اہم پہلو پانی کی کمی کے گرد گھومتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2022 تک دنیا بھر کے 739 ملین بچے پانی کی انتہائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں، جن میں سے 436 ملین ایسے علاقوں میں مقیم ہیں جہاں پانی انتہائی کمیاب ہے۔ پاکستان بھی دنیا کے ان خطوں میں شامل ہے، جو پینے کے صاف پانی کی ناکافی سہولت کے مسائل سے دوچار ہیں۔ ایسے میں یہ رپورٹ قلت آب کے مسائل سے نمٹنے کیلئے ناگزیر انتظامات کی ضرورت کی نشاندہی کرتی ہے۔
مزید برآں موسمیاتی تبدیلی حیرت انگیز طور پر تعلیم کے بنیادی حق سے بھی بچوں کی محرومی کا سبب بن رہی ہے۔ رپورٹ سے مظہر ہے کہ آب و ہوا سے متعلق قدرتی آفات دنیا بھر میں 40 ملین بچوں کی تعلیم میں خلل ڈالتی ہیں اور تعلیم کی راہ میں حائل یہ رکاوٹ ظاہر ہے کہ طویل مدتی ترقی اور معاشی نمو کی راہ مسدود کرتی ہے، جو کسی بھی قوم کا بڑا مجموعی نقصان ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں بچے جن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں، ان کے بنیادی اسباب میں ماحولیاتی آلودگی، گلوبل وارمنگ اور غذائی قلت جیسے عناصر شامل ہیں۔ یہ تمام اسباب مل کر مجموعی طور پر بچوں کی دماغی صحت، پھیپھڑوں اور مدافعتی نظام کو متاثر کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ موسمیاتی تبدیلی سے بچوں کیلئے یہ خطرات کم آمدن رکھنے والے اور زیادہ آمدن کے حامل دونوں طرح کے ممالک میں یکساں طور پر موجود ہیں۔ یوں یہ عہد حاضر میں ایک سنجیدہ عالمی مسئلے کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
تشویش کی ایک وجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں بچوں کی ضروریات کو نظر انداز کرنا بھی ہے۔ اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ کلائمیٹ فنڈنگ کا محض 2.4% بچوں پر مرکوز سرگرمیوں کے لیے وقف ہوتا ہے، جو موسمیاتی تبدیلیوں سے وابستہ بچوں کے وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے مسائل کے مقابلے میں بہت کم شرح ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مضر اور منفی اثرات کے مقابلے کیلئے متحرک ممالک میں صف اول میں کردار ادا کر رہا ہے، تاہم پاکستان کو دیگر اقوام کے ساتھ مل کر بچوں کے لیے صاف، صحت بخش اور پائیدار ماحول کو یقینی بنانے کی مہم بھی چلانی چاہیے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کی جتنی بھی سرگرمیاں عالمی سطح پر جاری ہیں، ان میں بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی ضرورت اور احساس کو بھی نمایاں جگہ ملنی چاہئے۔ آب و ہوا کے مسائل سے متعلق گفتگوؤں میں بچوں کی آواز اور ضروریات کو پیش نظر رکھنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔