ایشیا میں غیر قانونی تجارت کے نتیجے میں پاکستان سمیت متعدد ممالک کو بھاری نقصان کا سامنا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے جس کی معیشت سالانہ ہزاروں ارب کے نقصان کا سامنا کرتی ہے۔
اپنے ایک بیان میں پاکستان بزنس کونسل (پی بی سی) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جو غیر قانونی تجارت ہورہی ہے، اس کا مجموعی حجم ہماری دستاویزی و غیر دستاویزی معیشت کا کم و بیش 10فیصد بنتا ہے جس سے سالانہ 8000ارب کا نقصان ہوتا ہے۔
جرائم پیشہ عناصر غیر قانونی تجارت کی فنڈنگ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے انہیں تحفظ ملتا ہے۔ اس دوران انڈر انوائسنگ، ورکرز ترسیلات اور ہنڈی حوالہ سمیت دیگر ذرائع سے ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ خواتین، بچوں اور مزدوروں کا استحصال کیاجاتا ہے۔
یہاں قابلِ ذکر حقائق یہ ہیں کہ غیر قانونی تجارت میں سب سے زیادہ جنگلی جانوروں کی تجارت، مضر صحت منشیات کی خریدوفروخت اور انسانی اسمگلنگ جیسے عناصر شامل ہیں جن کے نتیجے میں اس قسم کی تجارت کے خلاف قانونی کارروائی اور بھی ضروری ہوجاتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی تجارت کے سدباب کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں، عدلیہ اور مقننہ تینوں کو بیک وقت اپنا اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کا شکنجہ تنگ سے تنگ نہ ہوتا چلا جائے۔