اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف قرارداد تو منظور کر لی تاہم اگر یہ معاملہ سلامتی کونسل میں جاتا اور وہاں سے قرارداد منظور کرائی جاسکتی تو اسرائیل سے حقیقی معنوں میں اس کی زبردستی پاسداری کرائی جاسکتی تھی جوکہ سلامتی کونسل میں اسرائیل فلسطین جنگ بندی کے خلاف امریکا اور برطانیہ کی مخالفت کے سبب نہ ہوسکا اور قرارداد منظور نہ ہوسکی جس سے مجموعی طور پر عالمی شعور اور ضمیر کے جاگنے کا اندازہ ہوتا ہے۔ جنرل اسمبلی میں 120ممالک نے قرارداد کے حق میں ووٹ دئیے، 14 نے مخالفت کی جن میں امریکا سرفہرست ہے جبکہ 45ممالک نے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہیں لیا اور یہی وجہ ہے کہ امریکا اور برطانیہ غزہ میں امن کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کو ویٹو کردیتے ہیں۔
عالمی شعور اسرائیل کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھائے، یہ بھی قابلِ تحسین ہے تاہم غزہ میں جاری ظلم و ستم، بد ترین بمباری، عمارات کا انہدام، ہسپتالوں، اسکولوں اور رہائشی عمارات کی تباہی و بربادی ایسے اقدامات ہیں جن کے خلاف عالمی برادری صرف آواز اٹھا کر اپنے فرائض سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ جنرل اسمبلی میں سلامتی کونسل کے مستقل رکن فرانس نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جبکہ سلامتی کونسل کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ چارٹر کے چیپٹر 6 کے تحت اسرائیل پر پابندی عائد کرسکتی ہے۔
اسی طرح سلامتی کونسل کو چیپٹر 7 کے تحت یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ معاملہ سنگین نوعیت کا ہونے پر ، جیسا کہ مقبوضہ فلسطین میں یہ معاملہ انتہائی سنگین حد تک پہنچ چکا ہے، مشرقی تیمور کی طرح اسرائیل کے خلاف غزہ میں بھی اپنی فوجیں اتار دے۔ تاہم سلامتی کونسل کے رکن ممالک، خاص طور پر مستقل اراکین کے روئیے کو دیکھتے ہوئے ایسا ہونا ناممکنات میں سے ہے تاہم خود مسلم ممالک کی جانب سے او آئی سی کے سربراہان کا اجلاس بھی نہ بلایا جانا انتہائی تشویشناک عمل ہے۔
اگر او آئی سی کے رکن 57ممالک باہمی اتحادو اتفاق سے صرف اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کردیں اور اسرائیل سے اپنے تعلقات کو ختم کریں تو اس سے بھی مغرب پر اچھا خاصا دباؤ ڈالا جاسکتا ہے اور ایک مختصر سے نوٹس پر اسرائیل فلسطین جنگ ختم کروائی جاسکتی ہے تاہم مسلم سربراہانِ مملکت کے اپنے مفادات ہیں جو ایسا کرنے کی راہ میں گزشتہ کئی عشروں سے حائل چلے آرہے ہیں تاہم عوامی سطح پر مسلم ممالک میں شدید تشویش پائی جاتی ہے اور بے شمار شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں فلسطین کے حق میں مطالبات سامنے آچکے ہیں۔ ایسے میں کچھ مسلم ممالک کی جانب سے جنرل اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی جس کے نتیجے میں مغرب سے بھی مثبت ردِ عمل کو گھٹن زدہ ماحول میں ہوا کے خوشگوار جھونکے سے تعبیر کیاجاسکتا ہے، تاہم جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا، کہ اس قرارداد کی حیثیت بھی اظہارِ خیال یا تقریر سے بڑھ کر کچھ نہیں، بقول حبیب جالبؔ:
سر منبر وہ خوابوں کے محل تعمیر کرتے ہیں
علاجِ غم نہیں کرتے، فقط تقریر کرتے ہیں
مسلمان قوم کے زوال کی بات کی جائے تو معروف محقق ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ گزشتہ 200 سال میں مسلمان ممالک کے جملہ وسائل یا تو اندرونی و بیرونی فتنوں کی سرکوبی میں صرف ہوئے یا پھر بڑے پیمانے پر مسلمان بادشاہوں اور حکمرانوں کا سارا زور اپنے اللّوں تلّلوں، عیاشیوں اور بدمعاشیوں یا پھر طاؤس و رُباب کی خدمت پر رہا -باقی ماندہ وسائل ان حاکموں نے اپنی حکمرانی کے استحکام کیلئے غیر ضروری خفیہ ایجنسیوں کے قیام پر لگا ڈالے۔ انہوں نے اپنی رعایا کو تحقیق تو دور کی بات ہے، علم اور تعلیم کی راہوں پر آنے ہی نہیں دیا تا کہ وہ جاہلوں کے غول اور نادانوں کی بھیڑ پر اپنی خرمستیوں کے باوجود آزادانہ حکمرانی کر سکیں۔تحقیق و تدوین کے شعبے میں مسلم ممالک کی قابلیت کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 58 آزاد اور خود مختار اسلامی ممالک کی آبادی دنیا کی مجموعی آبادی کا 24 فیصد (تقریبا 1اعشاریہ 8ارب ) ہے اس آبادی کا تقریبا ً40 فیصد حصہ ان پڑھ ہے۔ تمام اسلامی ممالک میں موجود یونیورسٹییز کی تعداد 600 سے زائد ہے جن میں پنجاب یونیورسٹی لاہور (1882ء) انڈونیشیا ء یونیورسٹی (1950ء )جکارتہ ،تہران یونیورسٹی (دانش گاہ طہران 1851ء) جامعہ ملک سعود (ریاض نومبر 1957ء) اور جامعۃ الازھر (قاھرہ مصر 1970ء ) وغیرہ شامل ہیں۔ ان یونیورسٹیوں سے سالانہ تقریباً ایک ہزار افراد پی ایچ ڈی کرتے ہیں ۔سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ان اسلامی ممالک کی مجموعی افرادی قوت صرف 80 لاکھ کے قریب ہے جو ان شعبوں میں مصروف عمل عالمی آبادی کا تقریبا ً4 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال ایک لاکھ سے زائد سائنسی کتب اور 20 لاکھ سے زائد سائنسی مقالات شائع ہوتے ہیں۔ جبکہ اسلامی ممالک سے شائع ہونے والی سائنس اور تحقیقی کتب اور مقالات کی سالانہ تعداد ایک ہزار سے تجاوز نہ کر سکی ۔
ہمیں اپنے نوجوانانِ ملت کو سمجھانا ہوگا کہ گزشتہ کئی دہائیو ں سے ہم انحطاط پذیر قوم بن چکے ہیں۔ کم و بیش 75سالوں سے مقبوضہ فلسطین اسرائیل کی جارحیت کا شکار ہے۔ اگر آج ہم من حیث القوم سائنس و ٹیکنالوجی اور تحقیق کے میدان میں کام کریں تو آئندہ چند ہی دہائیوں میں ہم اتنے مضبوط ہوسکیں گے کہ اقوامِ عالم کے شانہ بشانہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کے قابل ہوسکتے ہیں۔ جس طرح اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 14 ممالک کھل کر فلسطینیوں کے مخالف بن کر سامنے آئے،مسلمان قوم بھی اتنی قوی ہو گی کہ کھل کر ان کی مخالفت کرسکے گی اور اپنا حق منوا سکے گی۔
اقوامِ متحدہ نے 1967 میں اسرائیل سے کہا کہ فلسطین کی جن زمینوں پر آپ نے قبضہ کیا ہے، ان کو چھوڑ دیں ، یہ آج تک نہیں ہوسکا بلکہ مزید قبضے اور سیٹل منٹ ہوتی چلی گئی اور آج اسرائیل فلسطینیوں کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے ہے۔ فلسطین میں ہفتہ 28اکتوبر تک کے اعدادوشمار کے مطابق کم از کم 8 ہزار بے گناہ فلسطینیوں کو شہید کیا گیا جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔ صرف غزہ کے علاقے میں 5 ہزار افراد قتل ہوئے جن میں سے 62فیصد سے زائد خواتین اور بچے تھے جبکہ اسرائیل کے حملوں میں زخمی افراد کی تعداد 15 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جنہیں طبی امداد مہیا کرنے کیلئے ہسپتال کی سہولت تک میسر نہیں کیونکہ اسرائیل نے ہسپتالوں کو بھی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ غزہ کے مواصلاتی روابط پوری دنیا سے کاٹ دئیے گئے، پانی، بجلی اور خوراک کی سپلائی تک معطل ہوچکی ہے۔ مظلوم فلسطینیوں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ضروری ہے کہ امتِ مسلمہ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کیلئے دامے، درمے ، سخنے، ملکی اور عالمی سطح پر آواز بلند کرے اور انہیں اسرائیلی مظالم سے نجات دلانے کی راہ ہموار کی جائے۔