حماس مزاحمت  اور اسرائیل فلسطین جنگ

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسئلۂ کشمیر اور فلسطین کا آغاز1940ءکی دہائی میں ایک جانب بھارت تو دوسری جانب صیہونی ریاست اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی جارحیت، عالمی غنڈہ گردی اور ظلم و بربریت سے ہوتا ہے جس پر بین الاقوامی قوانین  اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود اقوامِ متحدہ، عالمی عدالتِ انصاف اور امریکا و برطانیہ سمیت مغربی ممالک نے تو آنکھیں بند کر ہی رکھی تھیں، تاہم مسلم امہ کی جانب سے بھی کوئی خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھائے جاسکے اور بھارت اور اسرائیل کو مقبوضہ سرزمینوں پر خون کی ہولی کھیلتے ہماری تین نسلیں دیکھ چکی ہیں تاہم ظلم و بربریت کا یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آتا۔

کہتے ہیں کہ ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ حماس کی جانب سے 7اکتوبر کو ہفتے کے روز جو 7000 راکٹ فائر کیے گئے، وہ اسرائیل کی جانب سے دہائیوں سے جاری ظلم وبربریت کا فطری جواب تھا جسے عالمِ اسلام کی جانب سے بھی  کم از کم قانونی حد تک حمایت حاصل ہے تاہم آج بھی مغربی ممالک کی جانب سے اسرائیل کی پشت پناہی کا سلسلہ ختم نہ ہوسکا بلکہ امریکی صدر جو بائیڈن نے تو کھل کر کہہ دیا ہے کہ اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ امریکا اسرائیل کی پشت پناہی کررہا ہے۔

فلسطین کی آزادئ کیلئے اسرائیل سے برسر پیکار حماس کے حملے جاری ہیں جن کے دوران گزشتہ 6 روز میں اسرائیل کی جانب سے وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں غزہ میں 2000 کے قریب فلسطینی  شہید جبکہ 5ہزار 600زخمی ہوئے۔ حماس کے حملوں کے نتیجے میں اسرائیلی فوج سمیت 1ہزار 300 افراد ہلاک جبکہ 3ہزار 300 زخمی ہوگئے۔ اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں کم از کم 3 لاکھ 38 ہزار 934فلسطینی شہری بے گھر ہوچکے ہیں۔ اسرائیل حماس سے جنگ کیلئے 3 لاکھ سے زائد  فوج  کی صف بندی کرچکا ہے۔اسرائیلی فوج  یرغمال اسرائیلیوں کی رہائی کیلئے محدود طور پر چھاپہ مار کارروائی کے نام پر غزہ میں داخل ہو گئی  اور ساتھ ہی اسرائیل نے یہ بھی متنبہ کردیا ہے کہ غزہ کا علاقہ خالی کردیا جائے ۔

ایک جانب تو مظلوم فلسطینیوں کو ہجرت کیلئے مجبور کیا گیا اور جب وہ گھروں سے نکلے تو اسرائیل نے بمباری کردی جس کے نتیجے میں شمالی غزہ چھوڑ کر جانے والے کم از کم 70فلسطینی شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوئے جن میں سے زیادہ تر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل تصاو یر اور ویڈیوز میں فلسطینی ماؤں  ، بہنوں اور بچوں کے کٹے ہوئے سرنظر آتے ہیں جس سے اسرائیل کی ظلم و بربریت بے نقاب ہوئی اور عین اذان کے وقت  مساجد پر حملے کیے جارہے ہیں اور نمازی بھی شہید ہورہے ہیں۔ 

اتحادی ممالک سمیت امریکا اسرائیل کی کھلم کھلا مدد کررہا ہے جبکہ برطانیہ میں فلسطین کا جھنڈا لہرانے کو دہشت گردی کی حمایت سے تعبیر کیاجارہا ہے تاہم نیو یارک میں بسنے والے یہودیوں نے غزہ کے حق میں نعرے بازی کی اور یہ مؤقف اپنایا کہ اسرائیل غزہ میں قتلِ عام بند کرے جو یہودیوں کے نام پر نہیں ہونا چاہئے اور جو اسلاموفوبیا کو فروغ دینے سے کم نہیں۔ او آئی سی کے رکن ممالک اور اسلامی برادری کو یہ سمجھنا ہوگا کہ بنیادی طور پر یہ علاقہ فلسطینیوں کا ہے جس پر اسرائیل کا ظلم و بربریت عالمی قوانین کے سراسر خلاف ہے۔

اقوامِ متحدہ کی جانب سے فلسطین کے حق میں جس طرح کے بیانات جاری ہونے چاہئیں، وہ بھی نہیں ہوئےجبکہ سلامتی کونسل متعدد مرتبہ اپنی قراردادوں کے ذریعے اسرائیل کے قبضے میں موجود سرزمین کو فلسطینیوں کی ملکیت قرار دے چکی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل کا قبضہ غیر قانونی ہے اور اسرائیل جو آج فلسطینیوں کو اپنے ہی ملک سے بے دخل کرنے کا کہہ رہا ہے، اسے فلسطینیوں کی سرزمین سے نکال باہر کرنا ہی اس مسئلے کا درست حل ہوگا لیکن اس کی بجائے دو ریاستی حل تجویز کیا جارہا ہے۔

ماضی میں اقوامِ متحدہ نے  قرارداد نمبر 242 کے ذریعے اسرائیل سے کہا تھا کہ آپ نے 1967ء کے بعد فلسطینیوں کی جن جن زمینوں پر قبضے کیے ہیں، وہ غیر قانونی ہیں، وہ قبضے چھوڑ کر واپس چلے جائیں لیکن اسرائیل نے اپنی ہٹ دھرمی برقرار رکھتے ہوئے آج تک مقبوضہ علاقے خالی نہیں کیے۔ حماس کی جانب سے حملے کو امریکا نے شیطانی اقدام قرار دیا جبکہ حماس نے اپنے ہی علاقے پر قابض اسرائیلیوں کو سبق سکھاتے ہوئے حقیقی اعتبار سے کسی بھی عالمی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ البتہ عالمی قوانین کے تحت کسی بھی سول آبادی کا پانی، کھانا، بجلی اور ضروریاتِ زندگی کی اشیا کی سپلائی بند نہیں کی جاسکتی اور اسرائیل ایسا کررہا ہے جس پر اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کو ایکشن لینا ہوگا۔

عالمی قوانین کے مطابق کوئی بھی قابض ملک کسی متنازعہ خطے میں جو غیر قانونی طور پر مقبوضہ ہو، نہ اپنی بستیاں بسا سکتا ہے اور نہ ہی تنصیبات کا قیام عمل میں لاسکتا ہے تاہم اسرائیل نے تو مقبوضہ بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ بنا لیا ہے جس پر عالمی برادری نے آنکھیں بند کرر کھی ہیں۔ اسرائیل نے دنیا بھر سے کم و بیش 8 لاکھ افراد کو لا کر فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیاں بسا کر آباد کردیا ہے جو کسی بھی صورت قانونی اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا۔

اگر کسی بھی آبادی کو کسی جرم پر مجموعی طور پر سزا دینے کا فیصلہ کر لیا جائے تو یہ بھی جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے اور اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری ہوئی اور ہزاروں فلسطینیوں کو جس طرح شہید کیا جارہا ہے جن میں سیکڑوں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں جو جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے، لیکن اس پر بھی مغربی ممال کی حکومتوں  کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی جو امریکا کے اتحادی بن کر اندھا دھند اس کی تقلید میں اسرائیل کی حمایت کیلئے کھڑے ہوچکے ہیں۔

فی الحقیقت  او آئی سی کی جانب سے اسرائیل کے ظلم وبربریت کے خلاف آواز ہمیشہ بہت مدھم اور ملائم رہی ہے۔ گو کہ او آئی سی کے اپنے ہی چارٹر کے آرٹیکل 9 کے مطابق او آئی سی کو چاہئے تھا کہ وہ سربراہان کا ہنگامی اجلاس بلا ئیں  اوراسرائیل کے خلاف عالمی قوانین کے مطابق  فیصلے  کریں۔تاہم او آئی سی کی جانب سے بھی معاملہ زبانی جمع خرچ سے کبھی آگے نہیں بڑھا کیونکہ زیادہ تر مسلمان ممالک کے باسی فلسطین کی آزادی اس لیے چاہتے ہیں کیونکہ یہاں مسلمانوں کا قبلۂ اول موجود ہے اور ہمارے دل بھی فلسطینیوں کے ساتھ اس لیے دھڑکتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں۔

تاہم زیادہ تر مسلمان ممالک کے سربراہان کے مفادات مغرب سے وابستہ ہیں کیونکہ ان کی جائیدادیں، بینک اکاؤنٹ اور اثاثے ایسے  مغربی  ممالک میں موجود ہیں جو ان کی غیرقانونی سرگرمیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے ان ممالک کے عوام کے حقوق  کو سلب بھی کرتے ہیں اور بالواسطہ معاون بھی بنتے  ہیں جس میں    منی لانڈرنگ، بدعنوانی اور کرپشن کو فرو غ دینا بھی شامل ہے ۔ دوسری جانب ایف اے ٹی ایف کے ذریعے مسلم ممالک کو معاشی پابندیوں کے خطرات سے ڈرایا بھی جارہا ہے۔

روس کا حماس اور اسرائیل کے مابین جاری تصادم پر مؤقف بہت واضح ہے کہ فریقین کے مابین فوری جنگ بندی ہونی چاہئے اور اسرائیل کو عالمی قوانین کی پابندی پر مجبور کرتے ہوئے مقبوضہ سرزمین سے نکلنے کا کہا جائے، سلامتی کونسل اجلاس کے دوران امریکا اور اسرائیل کی کوشش تھی کہ تمام ممبر ممالک حماس کے حملوں کی مذمت کریں لیکن سپر پاور کہلانے والا امریکا بھی اپنے تمام تر دباؤ اور سیاسی چال بازیوں کے باوجود رکن ممالک سے حماس کے حملوں کی مذمت نہ کروا سکا۔

دوسری جانب مسلم امہ کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی حکمران اشرافیہ (Authoritative Regime) ہے جو اپنے ذاتی مفادات کیلئے قومی مفادات کو قربان کردیتی ہے۔مقبوضہ فلسطین میں 1917 میں 3فیصد یہودی آبادی تھی جو آج 55فیصد تک جا پہنچی ہے۔ غزہ کی پٹی جس کا رقبہ 365مربع کلومیٹر ہے، اس کا لاکھوں کی اسرائیلی فورسز محاصرہ کر رہی ہیں جس سے اسرائیل کے شیطانی ارادوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جو پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ ہم فلسطینیوں کو ختم کردیں گے تاہم فلسطینی قوم اپنی سرزمین چھوڑ کر کہیں نہیں جائے گی۔ غیر قانونی آبادکاروں کو یہ سرزمین بالآخر چھوڑنی پڑے گی۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ آن پڑا ہے کہ مسلمان ممالک کے سربراہان  سہمے اور دبے ہوئے ہیں جو اپنے ہی مسلمان بھائی بہنوں کے حق میں آواز اٹھانے سے قاصر ہیں اور  اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2649 تو ہے ہی، آرٹیکل 9 کے تحت سربراہانِ مملکت کا غیر معمولی اجلاس طلب کرنے سے بھی ہچکچا رہے ہیں، او آئی سی کے باب 1، سب سیکشن 8 میں لکھا ہوا ہے کہ فلسطین کی جدوجہد ِ آزادی کی حمایت کریں گے اور عالمی قوانین بھی یہی کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اپنی ہی سرزمین پر اقتدار حاصل کرنے کا حق ہے، اس کیلئے ان کی مدد کی جانی چاہئے۔

عالمی قوانین اسلامی تعاون تنظیم کے کسی رکن ملک کو فلسطین کی مدد کرنےسے نہیں روک سکتا اور یہ مدد بھی دامے، درمے، سخنے کی جاسکتی ہے۔ ہر اسلامی ملک اپنی اپنی جگہ مجبور سہی، فلسطین کی حمایت کیلئے اتنا تو کیا جاسکتا ہے کہ یہ 57 ممالک اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی بلوا کر  ایک قرارداد پیش کردیں۔ سلامتی کونسل جس نے اب تک اسرائیل کے حملوں کی مذمت نہیں کی، اسے مذمت بلکہ حقیقی اقدامات پر بھی مجبور کیاجاسکتا ہے اور اگر اسلامی برادری نے آواز ہی بلند نہ کی تو فلسطین کے بعد اگلی باری ایران کی اور پھر خاکم بدہن دیگر ممالک بھی اس کا نشانہ بن سکتے ہیں ، اس لیے وقت آگیا ہے کہ او آئی سی کے ممبر ممالک اور ان کے سربراہان  ہوش کے ناخن لیں ۔

Related Posts