افغانستان پاکستان کا ہمسایہ اور مسلمان ملک ہے جس سے ابتدا ہی سے پاکستان نے اچھے تعلقات استوار کر رکھے ہیں تاہم کچھ علاقائی مسائل اور متعصبانہ رویے دونوں ممالک کیلئے وبالِ جان بن چکے ہیں۔
پاکستان کا ایک بہت بڑا مسئلہ لاکھوں کی تعداد میں سرحد پار سے آئے ہوئے افغانی تارکینِ وطن ہیں جو یہاں نہ صرف جائیدادیں خرید کر پاکستانیوں کی طرح گزشتہ کچھ دہائیوں سے رہ رہے ہیں بلکہ ان میں سے بعض عناصر جرائم میں بھی ملوث ہیں۔
اگر یہ جرائم معمولی نوعیت کے ہوتے تو انہیں برداشت کیاجاسکتا تھا کیونکہ جب کوئی طبقہ لاکھوں کی تعداد میں کسی سرزمین پر جا کر آباد ہوتا ہے تو ان میں سے کچھ لوگ اپنے میزبان ملک کیلئے بہت اچھے اور بعض بہت برے ثابت ہوسکتے ہیں تاہم سب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے۔
حال ہی میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے افغان مہاجرین کو بتدریج اپنے وطن روانہ کرنے اور پاکستان کو غیر قانونی تارکینِ وطن سے پاک کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس پر ایکشن کا آغاز ہوگیا ہے۔
بلاشبہ غیرقانونی تارکینِ وطن کو طویل عرصے تک مہمان بنا کر رکھنا پاکستان کیلئے بے حد مشکل ہے کیونکہ ہمارے وسائل، معیشت، اشیائے ضروریہ کی قیمتیں اور جرائم کی شرح سمیت بہت کچھ کنٹرول کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ ایسے تارکینِ وطن کی وطن واپسی کی راہ ہموار کی جائے۔
نگران حکومت سمیت گزشتہ حکومتوں کو افغانستان سے سرحد پار دہشت گردی اور ٹی ٹی پی کی جانب سے دہشت گردی کے حملوں کی شکایت رہی ہے جس میں ٹارگٹ کلنگ سے لے کر سکیورٹی اداروں کو نشانہ بنانے تک تمام اشتعال انگیز اقدامات شامل ہیں۔
ہمسایہ ملک افغانستان نے پاکستان کی شکایت کا مثبت جواب دیتے ہوئے ٹی ٹی پی سے عدم تعاون کی پالیسی اختیار کر لی ہے تاہم اتنا کافی نہیں ہے کیونکہ پاکستان کیلئے اس کے عوام کی سلامتی سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں ہوسکتی، کچھ ایسی ہی صورتحال افغانستان کی بھی ہے۔
افغان طالبان نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، دہشت گردی اور انسانی حقوق کی پاسداری ان کیلئے اہم مسائل بن گئے ہیں جن پر قابو پانے کیلئے افغانستان کو ایک طویل راستہ طے کرنا ہوگا جس میں افسوس کے ساتھ یہ ماننا ہوگا کہ آگ اور خون کے دریا کو پار کرنا بھی شامل ہے۔
داعش اور ٹی ٹی پی سمیت طالبان کے اپنے ہی دیگر دھڑے اور بہت سے چھوٹے موٹے جنگجو گروہ افغانستان کے ساتھ ساتھ اس کے ہمسایہ ممالک بشمول پاکستان کیلئے بھی بہت بڑاخطرہ بن گئے ہیں۔
دوسری جانب اگر پاکستان افغان مہاجرین کو یہاں سے نکالتا ہے تو اس پر کچھ عالمی قوانین اور تنظیمیں بشمول اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری بشمول امریکا، برطانیہ اور مغربی ممالک ہمارے ہاں انسانی حقوق کی پاسداری پر سوالات کھڑے کرسکتے ہیں۔
عالمی قوانین کے تحت کوئی بھی ملک جہاں مہاجرین پناہ لیتے ہیں، وہاں سے انہیں نکالا نہیں جاسکتا، جب تک کہ ان کی جان و مال اور خوراک کی سلامتی کے ساتھ وطن واپسی کی راہ ہموار نہ ہوجائے۔
تاہم پاکستان کو سب سے بڑا چیلنج یہ درپیش ہوگا کہ افغانستان کے غیر قانونی تارکینِ وطن یہ مؤقف اختیار کرسکتے ہیں کہ افغانستان میں انہیں جان کا خطرہ ہے، حالانکہ افغان طالبان اپنے مخالفین کیلئے پہلے ہی عام معافی کا اعلان کرچکے ہیں۔
ضروری ہے کہ پاکستان اپنے محکمۂ خارجہ کو ایسے ہی چیلنجز کیلئے تیار رکھے تاکہ عالمی سطح پر کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور افغان مہاجرین بھی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے وطن جا کر رہ سکیں جس کیلئے پاکستان اور افغانستان دونوں کو ان کی ہر ممکن مدد کرنا ہوگی۔