اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ بچوں کی عادتیں ہم خود بگاڑتے ہیں اور جب وہ بگڑی عادتیں ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں تو پھر ہم ان کی “اصلاح” شروع کر دیتے ہیں۔
بہتر نہیں کہ شروع سے ہی بہتر عادتیں ڈالی جائیں؟ مثلاً آپ یہی دیکھ لیجئے کہ شیر خوار بچے کو ہم غیر ضروری طور پر گود میں اٹھانے لگتے ہیں۔ اب بچہ تو اس عمر میں بھی اس عمر کے تقاضے جتنی ذہانت رکھتا ہے۔ چنانچہ بہت جلد وہ یہ جان جاتا ہے کہ گود سے بڑی کوئی عیاشی نہیں۔ یوں وہ بار بار اس عیاشی یعنی گود کے لئے رونا شروع کردیتا ہے۔ آپ گود میں لیتے ہیں تو چپ کرجاتا ہے۔ آپ جھولے یا بستر پر لٹاتے ہیں تو پھر سے رونا دھونا شروع۔ اور اسے ہر وقت گود میں اٹھائے رکھنا آپ کے بس میں نہیں ہوتا۔
چنانچہ ہوتا پھر یہ ہے کہ آپ اس کا یہ تقاضا پورا نہیں کرپاتے اور وہ رور رو کر انتہائی کم عمری میں نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ عمر تھوڑی مزید بڑھتی ہے اور وہ چلنا شروع کر دیتا ہے تو آپ اسے بار بار گھر کے باہر پورچ یا گلی تک لے جانے لگتے ہیں۔ یہ کام بھی آپ اس کثرت سے کرتے ہیں کہ وہ فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اصل عیاشی تو ”کھلی فضا“ ہے اب وہ یہ تو نہیں جانتا کہ کھلی فضا ہر وقت کی عیاشی نہیں، چنانچہ وہ اس کے لئے بھی رونا دھونا شروع کردیتا ہے اور چونکہ اسے ہر وقت باہر گھمانا آپ کے بس میں نہیں ہوتا تو اس کا مقدر آنسوؤں کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ یہ رونا اسے مزید نفسیاتی مسائل میں مبتلا کر دیتا ہے۔
ہم نے اپنے بچوں کو اس طرح کی عادتیں نہیں ڈالی تھیں۔ گود میں انہیں اتنا ہی اٹھایا جتنے سے انہیں عادت نہیں پڑی۔ باہر بھی انہیں یومیہ اتنا ہی لے کر گئے جتنا لے جانے سے انہیں عادت نہیں پڑی۔ یہ تو ہوئی بہت ہی چھوٹی عمر کے بچوں کی بات۔ اب ذرا عاقل بالغ بچوں کی جانب آجائیے! ہمارے تینوں بیٹوں کو ہم نے شروع سے ہی اپنے کام خود کرنے کی عادت ڈال دی تھی۔ چنانچہ اسی کا نتیجہ تھا کہ 6 سال کی عمر کے بعد ان کی ماں نے کبھی ان کے اسکول شو پالش نہیں کئے اور 12 سال کی عمر کے بعد ان میں سے کسی کے بھی کپڑے ماں نے استری نہیں کئے۔ اپنے سارے کام خود کرنے کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ آج کسی سے پانی تک طلب نہیں کرتے۔ پیاس لگتی ہے تو خود اٹھ کر پانی پیتے ہیں۔
کھانا ان کے آگے ماں لاکر رکھتی لیکن برتن وہ خود سنبھالتے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ دیکھئے! پہلے بڑے پھر منجھلے لڑکے کی شادی ہوئی تو ظاہر ہے گھر میں بہویں آگئیں۔ اب بہو بیچاری تو گویا ہوتی ہی ہر گھر کی ”چیف ماسی“ ہے۔ گھر کا سارا کام کاج اسی کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ ہر ایک اسی کو حکم جاری کرتا ہے مگر ہمارے گھر میں یہ کلچر نہیں۔ہماری بہویں اپنے شوہروں کی خدمت اور دیکھ بھال کرتی ہیں، مگر ہمارے لڑکوں نے انہیں نوکرانی نہیں بنا رکھا کہ ہر کام کا انہی کو حکم دیئے جا رہے ہوں۔ مثلاً دسترخوان سے برتن اٹھانے ہوں تو ہمارے لڑکے نوابوں کی طرح بیٹھے نہیں ہوتے بلکہ برتن اٹھانے میں پہل کرتے ہیں۔ کیوں؟ کیا وہ بیویوں کو آڈر نہیں دے سکتے؟ بالکل دے سکتے ہیں مگر بچپن سے ان کی عادت ہی یہ بن گئی ہے کہ اپنے کام خود کرنے ہیں۔ سو وہ شادی کے بعد اپنے بہت سے کام خود کرتے ہیں۔
لوگ کہتے ہیں خواتین گھر پر تو اچھے کپڑے پہنتی نہیں، باہر جاتی ہیں تو تیار ہونے لگتی ہیں۔ بھئی وہ گھر میں اچھے کپڑے کیسے پہنیں؟ ہر دو منٹ بعد آپ کے گھر کا کوئی نواب انہیں کچن میں آگ، تیل اور مسالوں میں جھونک دیتا ہے تو وہ وہاں نئے اور اچھے کپڑے کیسے برباد کریں؟ کیا کوئی خاتون کچن کے پسینے میں بہانے کے لئے میک اَپ کر سکتی ہے؟ پہلے اپنے گھر کا نظام متوازن کیجئے اور پھر دیکھئے کہ وہ گھر میں بھی تیار ہوتی ہے کہ نہیں؟ تیار ہونا یعنی سجنا سنورنا عورت کا شوق بھی ہے اور ذوق بھی۔ اس شوق اور ذوق کی تکمیل کے لئے اسے مناسب موقع تو دیجئے !
آخری گزارش یہ ہے کہ ہماری بہویں بھی تو ہماری بچیاں ہوتی ہیں۔ سو انہیں بھی شادی کے بعد شروع ہونے والی نئی زندگی کی اہم ترین چیزیں سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ماں بننے کے بعد جو اہم ترین چیز ان بچیوں کو سکھانے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ گھر پر بچے کو ڈائپر میں رکھنے والی ماں ”نالائق اور نکمی ماں“ ہوتی ہے۔ ڈائپر بچے کو تب پہنایا جائے جب آپ اسے گھر سے باہر لے جا رہے ہوں۔ ایک معصوم بچے کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوگا کہ وہ روز کئی گھنٹوں تک اپنا پیشاب وغیرہ اٹھائے پھرے؟ خدا گواہ ہے، ہم جب کسی کے گھر جاتے ہیں اور وہ اپنا کوئی چھوٹا سا بچہ ہماری گود میں لا ڈالتے ہیں اور اس بچے نے ڈائپر پہن رکھا ہو تو ہمیں کراہت ہونے لگتی ہے۔ سو جلدی سے اس سے جان چھڑا لیتے ہیں۔
آج کے دور کی ان نکمی ماؤں کو اتنی بھی عقل نہیں کہ یہ ادراک کرسکیں کہ ڈائپر میں پاخانے کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ بچہ گندہ نہیں ہے؟ وہ اپنے جسم سے چپکی غلاظت لئے پھر رہا ہے مگر چونکہ بدبو گھر میں نہیں پھیل رہی تو آپ کو پروا ہی نہیں۔ اللہ کا واسطہ! گھروں پر بچوں کو ڈائپر میں مت رکھا کیجئے۔ ظاہر ہے چھوٹی عمر میں بچہ بار بار پیشاب کرتا ہے اس مقصد کیلئے درجن بھر پاجامے اور پلاسٹک پر بچھائے جانے والے کپڑے گندے ہوتے ہیں سو ہوتے رہیں۔ اٹھایئے ناں یہ تکلیف۔ جنت ویسے ہی ماؤں کے قدموں تلے تھوڑی رکھ دی گئی ہے۔ اگر بچوں نے گندگی ڈائپر میں اٹھائے پھرنا ہے تو جنت پھر ماؤں کے قدموں تلے نہیں بلکہ ڈائپر بنانے والی کمپنی کے مالک کے قدموں تلے تلاش کرنی شروع کر دیجئے !