نگران حکومت کی ٹیکنوکریٹ کابینہ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ٹیکنوکریٹ کابینہ نے ذمہ داریاں سنبھال لی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر کی صورت میں یہ حکومت تادیر بھی قائم رہ سکتی ہے۔

متعدد سیاسی رہنما پہلے ہی نگراں حکومت کے زیرِ سایہ ہونے والے عام انتخابات رواں برس نہ ہونے کی پیشگوئی کرچکے جبکہ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ نئی ڈیجیٹل مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندی کو 14دسمبر تک حتمی شکل دے دیں گے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے گا جس کے نتیجے میں الیکشن کئی ماہ آگے چلے جائیں گے جو فروری 2024 یا پھر اس کے بعد بھی ہوسکتے ہیں۔ عبوری حکومت میں اسٹیٹ بینک کی سابق سربراہ شمشاد اختر وزیرِ خزانہ بن چکی ہیں۔

نگراں حکومت کے اراکین متنوع پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھاری عہدوں کے حصول کیلئے زیادہ دباؤ قبول نہیں کیا گیا جبکہ یہ ٹیکنو کریٹ کابینہ طویل عرصے تک حکومت کیلئے تیار نظر آتی ہے۔

حکومت کا بنیادی کام ملک میں عام انتخابات کی بجائے ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جانا ہوگا کیونکہ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ ڈیل کے بعد پاکستان انتہائی سخت معاشی حالات کا شکار ہے۔ حالیہ معاشی اصلاحات مہنگائی تاریخی سطح پر پہنچ چکی ہے۔

بلند شرحِ سود سے قرضوں کی شرح بھی گر چکی ہے اور کاروبار کرنا بھی دشوار ہوچکا ہے تاہم اس تمام تر صورتحال میں سپریم کورٹ انتخابات کے بر وقت انعقاد کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس آئندہ ماہ کے اوائل میں ہی ریٹائر ہوسکتے ہیں۔

اس سے قبل چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر نے تفصیلی ملاقات بھی کی اور لگتا کچھ یوں ہے کہ انتخابات نئی مردم شماری کے مطابق ہوں گے۔ مردم شماری کے نتائج کی منظوری دینے والے سی سی اجلاس کی ساکھ چیلنج کی جاچکی ہے تاہم اس پر سپریم کورٹ نے سماعت کا عندیہ نہیں دیا۔

کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظام میں آئین کی بالادستی اور بر وقت انتخابات کا انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں ایک روز کی بھی تاخیر آئین کی خلاف ورزی اور جمہوریت کیلئے دھچکا ہوسکتا ہے۔ ایسے خدشات ہیں کہ اگر نگراں سیٹ اپ اپنی آئینی مدت سے آگے بڑھ جائے تو اس سے غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار کو استحکام کا موقع ملے گا۔

تحریکِ انصاف کا الزام تھا کہ پی ڈی ایم حکومت عمران خان سے منہ چھپانے کیلئے انتخابات کی بات کر رہی ہے تاہم عمران خان جیل میں ہیں اور انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی امکان نہیں، پھر بھی انتخابات میں تاخیر کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔

ہوسکتا ہے کہ یہ سیاستدانوں کی مایوسی ہو یا احتساب کے فقدان نے جمہوری حکومت کو کمزور کرنے کی سازش کرنے والوں کی حوصلہ افرائی کی ہو۔بہتر یہی ہے کہ ملک معاشی استحکام کی جانب بھی جائے اور انتخابات میں بھی غیر ضروری تاخیر سے بچا جائے۔ 

Related Posts