طاقتوروں کی طاقت بڑھانے کا قانون

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا "یومِ قیامت طیارہ" حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت عنقریب سبکدوش ہونے والی حکومت، جو اپنے آخری دنوں میں بڑی عجلت میں پارلیمنٹ میں قانون پر قانون بنائے چلی جا رہی ہے، نے انٹیلی جنس ایجنسیوں کی طاقت اور اختیار میں اضافے کیلئے انگریز دور کے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا متنازع ترمیمی قانون پاس کیا ہے۔

اس نئے قانون کی رو سے ایجنسیوں کو کسی بھی شہری پر چھاپا مارنے اور اسے حراست میں لینے کیلئے بغیر سرچ وارنٹ کے کسی بھی جگہ داخل ہونے کے اختیارات حاصل ہوجائیں گے۔
گزشتہ ہفتے پارلیمانی امور کے وزیر مرتضیٰ جاوید عباسی نے  اسمبلی میں پرائیویٹ ممبرز ڈے پر ایک ضمنی ایجنڈے کے ذریعے آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں ترمیم کا بل پیش کیا۔ بل کو اسی دن منظور کر لیا گیا تھا لیکن اگلے ہی دن اپوزیشن کی خاصی تعداد والے سینیٹ نے اسے سختی سے مسترد کر دیا۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 ایک ایسا قانون ہے جس کا مقصد سرکاری معلومات اور دستاویزات کے افشاء کو روکنا ہے، یہ قانون برطانوی نوآبادیاتی دور میں نافذ کیا گیا تھا اور اسے فرسودہ اور جابرانہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
آفیشل سیکرٹس ایکٹ میں مجوزہ ترمیم میں کئی نئی دفعات شامل کی گئی ہیں اور اصطلاحات اور طریقہ کار میں ترمیم کی گئی ہے۔ اپنے جوہر میں مجوزہ قانون تمام تر ترامیم کے ساتھ ریاست کو بہت زیادہ سخت اختیارات دیتا ہے۔
ترمیمی قانون میں “دشمن” کی بھی دوبارہ تعریف کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا شخص جو براہ راست یا بالواسطہ، جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر غیر ملکی طاقت، غیر ملکی ایجنٹ، غیر ریاستی قوت، تنظیم، ادارہ، انجمن، یا گروہ کے لیے کام کر رہا ہو یا اس کے ساتھ ملوث ہو وہ دشمن ہے۔

مزید برآں یہ ایجنسیوں کو وارنٹ حاصل کرنے کے تردد میں پڑنے سے بھی بے نیاز کرتا ہے اور انہیں اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی شخص یا کسی بھی جگہ میں داخل ہوکر تلاشی لے سکتی ہیں، گویا اب کسی کا شہری کا گھر یا اس کی دستاویزات محفوظ نہیں۔ ترمیمی قانون کے تحت یہ اختیار پاکستان کے آئین کی مکمل خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ “انسان کی عزت اور قانون، گھر کی پرائیویسی، ناقابل تسخیر ہو گی۔”
مختلف حلقوں بالخصوص وکلا برادری کی جانب سے اس بل کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔ پاکستان بار کونسل، جو ملک میں وکلاء کی اعلیٰ ترین تنظیم ہے، نے مجوزہ ترامیم کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ پی بی سی نے ان ترامیم کو غیر آئینی، سخت اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 میں کی گئی ترامیم نے ملک میں قومی سلامتی اور شہری آزادیوں کے درمیان توازن کے بارے میں سنگین سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ بل پر ریاستی اداروں کو بغیر کسی عدالتی نگرانی یا جوابدہی کے وسیع اختیارات دینے اور سرکاری اداروں اور اہلکاروں کی شفافیت اور احتساب کو نقصان پہنچانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔
اگرچہ اس بل کو مختلف درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جنہوں نے آئینی بنیادوں پر اس کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے، اس کے باوجود یہ بات انتہائی پریشان کن ہے کہ جمہوری اقدار، نا انصافی اور انسانی حقوق کی بات کرنے والی حکومت ان تمام باتوں کی اپنے عمل سے نفی کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ 

Related Posts