اختیارات ہمیشہ ذمہ داری کے ساتھ آتے ہیں لیکن انسان ہمیشہ ذمہ داری ایک طرف ڈال کر اختیارات قبول کر لیتا ہے اور یہ ایک ایسی تشویشناک عادت ہے جو پورے معاشرے کو مشکلات میں مبتلا کردیتی ہے۔
مثال کے طور پر کسی بھی معاشرے میں غربت کا المیہ انصاف، ہمدردی اور اجتماعی ترقی کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس کا سب سے مایوس کن پہلو یہ ہے کہ سیاستدان غریبوں کی ضروریات پوری نہیں کرسکتے، پھر بھی خود کو چیمپین سے کم نہیں سمجھتے۔
ایک اور بڑا مسئلہ کسی بھی قوم میں اعتماد و اتحاد کا فقدان ہے جو غربت سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ثابت ہوتا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ قوم سرجوڑ کر مل بیٹھے اور اپنے سیاسی رہنماؤں کا احتساب کرے تاکہ سب کو بہتر مستقبل میسر آسکے۔
سیاست دانوں کی جانب سے کمزور معاشی صورتحال کے حامل غریبوں سے ووٹ مانگنا کوئی نئی بات نہیں۔ سیاستدان ہمیشہ پسماندہ افراد کی حالتِ زار کا استحصال کرتے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جھوٹے وعدے اور امداد کی بے بنیاد پیشکش کی جاتی ہے۔
ایک بار اقتدار میں آجائیں تو سیاستدان اپنی مالی منفعت اور ذاتی مفادات کی خاطر غریبوں کے مفادات کو بری طرح نظر انداز کرتے ہیں۔ یوں ملک میں غربت ختم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جاتی ہے۔
جھوٹے وعدوں کے باعث باہمی اعتماد کی فضا کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ مراعات یافتہ طبقات خوشحال سے خوشحال تر ہوتے جاتے ہیں جبکہ غریب لوگ غریب تر ہوتے رہتے ہیں۔ یوں دو طبقات کے مابین فاصلہ بڑھتا چلا جاتا ہے۔
عدم مساوات کے باعث سماجی ہم آہنگی کو نقصان پہنچتا ہے اور مجموعی اقتصادی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ضروری ہے کہ اس تشویشناک صورتحال سے نکلنے کیلئے ہم من حیث القوم اتحاد و یگانگت کو فروغ دیں تاکہ بعض مخصوص طبقات کی بجائے پوری قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکے۔
اتحادویگانگت کا مطلت رائے یا عقائد کی یکسانیت نہیں بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ ہم سب ایک ساتھ ہی آگے بڑھ سکتے ہیں کیونکہ ہمارے مقدر آپس میں منسلک اور مربوط ہیں۔ اس لیے کچھ طبقات کو حاصل ہونے والی ترقی سب کو ملنی چاہئے۔
سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ حکومت متعصبانہ مفادات پسِ پشت ڈال کر مشترکہ فلاح و بہبود کو فروغ دے۔ اس طرح غربت کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے تمام تر بنیادی مسائل کے حل تلاش کیے جاسکتے ہیں اور غربت کم کی جاسکتی ہے۔