دنیا کی دیگر مخلوقات کو روئے زمین پر پیدا ہونے کے بعد سب سے زیادہ اپنے ماحول اور اپنے اردگرد بسنے والی مخلوقات کو جاننے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن انسان ان سب سے الگ ہے۔
دیگر مخلوقات اگر اردگرد کی مخلوقات کو نہ جانیں تو انہیں لاعلمی میں کسی کا شکار ہونے کا خدشہ رہتا ہے، اپنے ماحول کو نہ سمجھیں تو موسمی حالات کے باعث ہلاکت کا خوف ستاتا ہے۔
دوسری جانب انسان کو بھی یہ تمام تر مسائل درپیش رہتے ہیں لیکن انسان کیلئے خودشناسی بھی بے حد ضروری ہوتی ہے کیونکہ انسان جذبات، احساسات اور خیالات کا مرقع ہے جو جذبات کی رو میں بہہ کر یا پھر حقیقت پسندی کا حد سے زیادہ شکار ہو کر غلط فیصلے کرسکتا ہے۔
دراصل خود شناسی ہمیں اپنی طاقت، کمزوریوں اور منفرد خصوصیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی اجازت دیتی ہے، جس سے اس بات کی گہری تفہیم ہوتی ہے کہ ہم بحیثیت فرد کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں۔
خود شناسی کے ساتھ خود کو قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، جو ایک صحت مند خود اعتمادی اور اعتبار کی تعمیر کے لیے ضروری ہے۔ اپنی حدود کو جاننا اور ان شعبوں کو تسلیم کرنا جہاں ہمیں بہتری کی ضرورت ہے حقیقت پسندانہ اہداف طے کرنے اور خود کو بہتر بنانے کے لیے کام کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔
خود شناسی ہمیں یہ سمجھنے کے قابل بناتی ہے کہ ہمارے اعمال دوسروں پر کیسے اثر انداز ہوتے ہیں، یوں ہم دوسروں سے بہتر تعلقات اور مواصلات کو فروغ دیتے ہیں۔
ہم کیا جدوجہد کر رہے ہیں؟ اسے سمجھنا دوسروں کی جدوجہد سے سبق حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے۔ خود پر قابو رکھنا ہمارے جذبوں اور رد عمل کو منظم کرنے کی کلید ہے، جس سے ہمیں متاثر کن فیصلوں اور افسوسناک اعمال سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
خود شناسی ہمیں جذبات کے سامنے جھکنے کی بجائے صبر و تحمل، غور کرنے اور عقلی انتخاب کرنے کی اجازت دے کر فیصلہ سازی کی مہارتوں کو بڑھاتی ہے۔خود پر قابو ہمیں آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی طاقت دیتا ہے۔ یہ تناؤ اور اضطراب کو کم کرتا ہے، کیونکہ ہم مشکل حالات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں اور اپنے جذباتی ردعمل کو منظم کر سکتے ہیں۔
خود پر قابو پانے سے صبر اور استقامت میں اضافہ ہوتا ہے، طویل مدتی کامیابی کے حصول کے لیے یہ ضروری خصوصیات ہیں۔ خود پر قابو پانا دراصل نظم و ضبط کی بنیاد ہے، جو ہمیں معمولات پر قائم رہنے اور اپنی خواہشات کے لیے مستقل طور پر کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ ہماری بری عادات اور لت پر قابو پانے میں مدد کرتا ہے، جس سے ایک صحت مند اور زیادہ متوازن زندگی حاصل ہوسکتی ہے۔ فارسی زبان کے شاعر حکیم سنائی کا ایک شعر ہے:
بر خود آرنرا کہ پادشاہی نیست
برگیا ہیش پادشاہ شمار
یعنی جو شخص اپنی ذات پر حکمرانی حاصل نہیں کرسکتا، اسے صرف گھاس کا بادشاہ شمار کرو، مطلب یہ کہ وہ ایک ایسا بادشاہ ہے جسے ایک تنکے کا بھی اختیار نہیں۔