قومی اسمبلی کی تحلیل اور نگراں سیٹ اپ کی آمد کی درست تاریخ پر قیاس آرائیاں اور شدید بحث و تمحیص جاری ہے۔ مخلوط حکومت نے آئینی مدت پوری ہونے کے بعد رخصت ہونے کے لیے مشاورت شروع کردی۔
موجودہ حکومت کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے تاہم حکومت چند روز قبل یعنی 8 اگست کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ ایسا اس قانون کا فائدہ اٹھانے کے لیے کیا جا رہا ہے جو 90 دن کے اندر انتخابات کرانے کی اجازت دیتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب عام انتخابات کے لیے دیے گئے ساٹھ دن کی بجائے اسمبلیاں اپنی مدت سے پہلے ہی تحلیل ہو جاتی ہیں۔
نگران وزیراعظم کا عہدہ کس کو ملے گا اس پر بھی خاصی قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ یہ عہدہ عموماً ریٹائرڈ ججوں یا بیوروکریٹس کو دیا جاتا رہا ہے لیکن اس بار ان عہدوں پر کسی سیاستدان کو تعینات کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگرچہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ عہدہ کس کو ملے گا، عبوری وزیر اعظم پر ایک اور دھاندلی کے تنازعے کو جنم دینے کی بجائے انتخابات کرانے کی بہت بڑی ذمہ داری ہوگی جو کہ تمام جماعتوں کیلئے قابلِ قبول ہوں۔
انتخابی اصلاحات کے حوالے سے آئندہ انتخابات کے لیے حلقہ بندیوں کے متعلق ایک اور تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔ مختلف جماعتوں اور صوبوں کی جانب سے بے ضابطگیوں کے اعتراضات کے بعد مردم شماری کے نتائج کی منظوری نہیں دی گئی۔ حکومت نے اب 2017 کی مردم شماری کے پرانے اعداد و شمار کی بنیاد پر انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور عذر یہ پیش کیا جارہا ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کیلئے وقت نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کا اجلاس 25 جولائی کو طلب کیا ہے جس میں مردم شماری کے نتائج کی منظوری دی جاسکتی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی یہ پہلی سی سی آئی میٹنگ ہوگی، جس کے چند ہی دنوں میں تمام اراکین استعفیٰ دے دیں گے، یوں ہمیں ایک آئینی بحران کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے انتخابات میں تاخیر کا خطرہ ہو سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اگرچہ اس بات پر اتفاق ہے کہ انتخابات شیڈول کے مطابق ہونے چاہئیں، لیکن اگلے انتخابات کو نقصان پہنچانے کی ٹھوس کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ یہ کہے بغیر کہ انتخابات قوم کو سیاسی استحکام دینے کا باعث بنیں گے۔ اگلے انتخابات کو خطرے میں ڈالنے کی کوئی بھی کوشش نہ صرف سیاسی بحران میں اضافہ کرسکتی ہے بلکہ ملک میں معاشی استحکام لانے کی کوششیں بھی بے سود ثابت ہوسکتی ہیں۔
بلا شبہ انتخابات میں تاخیر کی کوئی وجہ نہیں ہے بلکہ جمہوری عمل کو تقویت دینےکیلئے انتخابات کا انعقاد آزادانہ، منصفانہ اور شفاف طریقے سے ہونا چاہیے۔