پرویز خٹک کی پارٹی

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

حال ہی میں پی ٹی آئی پارلیمنٹیرینز کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنانے والے پرویز خٹک کو تحریکِ انصاف نے پہلے تو شوکاز نوٹس بھیجا اور پھر پارٹی سے نکال دیا تھا۔

اس کے باوجود پرویز خٹک نے اپنا الگ دھڑا بنا لیا جس کا سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کو شاید سب سے بڑا دھچکا لگا جبکہ نئی پارٹی کو عام انتخابات سے قبل خیبر پختونخوا میں جسے تحریکِ انصاف کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، ایک چیلنج کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

نئی پارٹی زیادہ تر پی ٹی آئی کے سابق ارکان پر مشتمل ہے جنہوں نے 9 مئی کے پرتشدد واقعات کے بعد خود کو الگ کر لیا یا پھر پہلے سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ میڈیا کے حوالے کی گئی پارٹی ممبران کی فہرست میں 57 افراد کے نام دکھائے گئے جنہوں نے حمایت کا اظہار کیا۔ ان میں سب سے نمایاں کے پی کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان اور سابق گورنر شاہ فرمان تھے۔

نئی پارٹی کے اعلان  کے چند گھنٹوں کے اندر ارکان کی جانب سے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والے اختلافی پیغامات سامنے  آئے۔ PTI-P مختلف مخالفین کو اکٹھا کر کے اپنی تخلیق  کے چند گھنٹوں کے اندر ہی انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی کا سیاسی منشور زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے اور نہ ہی خٹک پی ٹی آئی کے ارکان میں زیادہ  اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ پرویز خٹک  نے اقتدار کی امیدوں پر اوس پڑ جانے کے بعد  مایوسی کے عالم میں پارٹی بنائی۔قبل ازیں پی ٹی آئی کے مضبوط رہنما کے طور پر پرویز خٹک نے وزیر اعلیٰ کے پی کے کی حیثیت سے ذمہ داریاں سرانجام دیں تاہم وزیر دفاع کے طور پر پی ٹی آئی کے دور میں ان کی اہمیت کم ہوئی اور عمران خان سے صوبے کے معاملات پر اختلافات بھی ہوئے اور اپنی پارٹی سے وابستگی کے تابوت میں پرویز خٹک نے آخری کیل اس وقت ٹھونکی جب وہ 9 مئی کے واقعات کے متعلق بیان دیتے نظر آئے۔

پی ٹی آئی نے خٹک کی نئی پارٹی پر تشویش کو مسترد کرتے ہوئے اسے مون سون کی بارش کے بعد بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح قرار دیا  اور کہا کہ نئی پارٹی ایک مایوس یونین ہے اور اچھا ہوا کہ بزدلوں نے پارٹی چھوڑ دی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی اگلے الیکشن میں کے پی میں اپنا گڑھ برقرار رکھنے میں کامیاب ہو جائے گی؟  پی ٹی آئی نے اس وقت تاریخ رقم کی جب اس نے کے پی میں لگاتار دو بار کامیابی حاصل کی لیکن تیسری بار پارٹی کے لیے مشکلات پید اہوسکتی ہیں۔

یہ بھی دیکھنا باقی ہے کہ کیا پرویز خٹک  کو اقتدار میں کوئی حقیقی دلچسپی  ہے یا پارٹی محض سیاسی طور پر متعلقہ رہنے کی کوشش ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں واپس آنے کے کم ہوتے امکانات کو محسوس کرتے ہوئے دیگر لوگ  بھی اس پارٹی کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ لیکن کیا یہ کے پی میں اگلی حکومت بنانے کے لیے کافی ہوگا؟ یا پھر اس  صوبے میں معلق پارلیمنٹ ہوگی جو سیاسی بحران  میں مزید اضافے کا باعث بنے گی؟

عام انتخابات سے قبل انحراف اور نئے اتحادوں کی تشکیل ایک عام سی بات ہے۔ تاہم پرویز خٹک کی پارٹی کے قیام کو کے پی میں پی ٹی آئی کو مزید کمزور کرنے کی کوشش  سمجھا جارہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ منصوبہ کامیاب ہوتا ہے اور پی ٹی آئی اپنے مضبوط ترین قلعے کا دفاع کر پائے گی یا نہیں۔