موجودہ دور کو اگر فتنوں، فسادات، قتل و غارت اور آسمانی آفتوں کا دور کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا جبکہ امتِ مسلمہ کی سب سے بڑی آزمائش اور ہم پر آسمان سے نازل ہونے والی سب سے بڑی آفت مفلسی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قریب ہے کہ مفلسی کفر تک پہنچا دے۔“ گویا غریبی انسان کا ایمان چھین سکتی ہے، ایک انسان کے سینے میں سب سے قیمتی چیز دل اور مسلمان کے دل میں سب سے قیمتی چیز اس کا ایمان ہوتا ہے اور مفلسی اس سے یہ بھی چھین سکتی ہے۔
ظاہر ہے کہ ایک شخص کے پاس کھانے کو روٹی اور پہننے کو کپڑے نہیں اور رہائش کیلئے سر پر چھت نہیں تو وہ کیا کرے گا اور کہاں جائے گا؟ اگر ایسے شخص سے کہا جائے کہ ہم تمہیں روٹی، کپڑا اور مکان دیں گے، بس ہمارا یہ کام کردو۔ کیا وہ انکار کرے گا؟
پاکستان میں خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی آبادی گزشتہ 75سال سے مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے جس پر کنٹرول کا کوئی پیمانہ آج تک وضع ہی نہیں کیا گیا۔ حکومت جن لوگوں کے ہاتھ میں ہے، وہ نہ اس مقصد کیلئے اقتدار میں آئے تھے، نہ ہی اس پر کام کر رہے ہیں۔
حال ہی میں یہ ”خوشخبری“ سننے کو ملی کہ وفاقی حکومت آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی جس کیلئے عالمی مالیاتی ادارے نے بھی اپنی شرائط منوائی ہیں۔ ظاہر ہے کہ پاکستانی قوم نے آئی ایم ایف کا اتنا طویل انتظار ان کی شرائط کو تسلیم کرنے کیلئے ہی تو کیا تھا۔
جب جب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہوتا ہے تو ڈالرز ملتے ہیں اور زرِ مبادلہ بڑھنے سے آہستہ آہستہ روپے کی قدر کنٹرول ہونے لگتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق آنے والے چند روز میں ڈالر کی قدر 270روپے تک گر سکتی ہے لیکن واقفانِ حال بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا کتنی مدت کیلئے ہوگا۔
پھر کچھ گدھ صفت لوگ وہ ڈالرز خرید لیں گے اور جب ڈالر کی قیمت ایک بار پھر 300 کا ہندسہ عبور کر جائے گی تو شاید اس وقت ان لوگوں کو ڈالرز بیچنے کا خیال آجائے، تاہم اگر ایسا صرف ڈالر کے ساتھ ہی کیا جاتا تو معیشت کو سنبھالا دینے کے دیگر ذرائع آسان ہوسکتے تھے۔
لیکن ہم یہ بد ترین منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی زندگی کے ہر شعبے میں اور ضرورت کی ہر چیز کے ساتھ کرتے جارہے ہیں۔نتیجتاً ہر چیز کے دام بڑھتے جارہے ہیں۔ غریبوں کی تعداد بھی کم ہونے میں نہیں آتی۔ نتیجہ خودکشی یا پھر جرائم کی شرح میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ عوام بھی ان حقائق کو سمجھے اور اپنے مجموعی رویے میں مثبت اور تعمیری تبدیلیاں پیدا کرے تاکہ خطِ افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی نہ صرف تعداد کم ہو بلکہ ان لوگوں کو جو پہلے ہی غریب ہوچکے، قومی دھارے میں بھی لایا جاسکے۔