امریکا اور بھارت کا مشترکہ اعلامیہ اور اس کے مضمرات

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکاکے موقعے پر ایک تشویشناک بات یہ سامنے آئی کہ  امریکا اور بھارت نے نریندر مودی اورامریکی صدر جو بائیڈن کی ملاقات کے بعد ایک  مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جس میں پاکستان پر سرحد پارسے دہشت گردی کے الزامات عائد کیے گئے۔

دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ بھارت امریکا مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کا ذکر غیر ضروری، گمراہ کن اور سفارتی آداب کے منافی ہے ، یہ تو پاکستان کا  مؤقف ہوا جبکہ بھارت سے پاکستان کو کبھی خیر کی امید نہیں رہی ہے لیکن امریکا کی جانب سے سفارتی آداب کے سراسر خلاف جا کر 2 ممالک کے مشترکہ اعلامیے میں کسی ایک ملک کو نشانہ بنانا خطے  کے تیزی سے بدلتےہوئے جیو پولیٹیکل حالات کی سنگین صورتحال   کی عکاسی کرتا ہے، جس پر ہمیں  دوست ممالک کے ساتھ مل کر فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

امریکا نے اپنے خارجہ پالیسی اہداف کو حاصل کرنے کیلئے بھارت کی اہمیت کو اپنے ملک میں کس  حد تک اجاگر کیا  ، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے کانگریس مشترکہ سیشن کے تمام  شرکاء نے  خطاب کے دوران 15 بار کھڑے ہو کر اور 75بار عمومی طور پر تالیاں بجائیں اور نریندر مودی کی پذیرائی کی۔  اس دوران کیپٹل ہل میں مودی مودی کے نعرے گونجتے رہے۔ ان  تمام تر لوازمات اور انتظامات کا مقصد یہی ہے کہ بھارت کے غبارے میں اتنی ہوا بھر دی جائے کہ وہ اس سے باہر نہ آسکے اور اسے صحیح معنوں میں چین کے خلاف استعمال کیاجاسکے۔

پاکستان کے خلاف بیان جاری کرتے ہوئے امریکا نے صرف اور صرف اپنے مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھا، نہ اسے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں نظر آئیں اور نہ ہی خود بھارت میں اقلیتوں پر ہونے والے ظلم و ستم پر آواز اٹھانے کا کوئی خیال آیا ، یوں روسی قیادت کی جانب سے مغربی ممالک کے خلاف دیا گیا یہ بیان امریکا کے حوالے سے بھی سچ ثابت ہوتا ہے کہ ان ممالک کو انسانی حقوق صرف اور صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب اپنے مفادات کی بات ہو، جب مفادات پر آنچ نہ آتی ہو تو انسانی حقوق کو جتنا مرضی پامال کیا جائے، ان ممالک کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، نہ ہی انسانی حقو ق کے تحفظ کی کوئی بات یا نعرے بلند کیے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکا کی اپنی 2022ء کی مذہبی آزادی کی رپورٹ ، جس میں  بھارت میں مذہبی تفریق، تناؤ اور شدت پسندوں کی جانب سے اقلیتوں کے قتل سمیت انسانی حقوق کی دیگر سنگین خلاف ورزیوں کا ذکر ہے کی بھی پاسداری نہیں کی ، اس تناظر میں ہمیں جیو اسٹرٹیجک اور جیو پولیٹیکل تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنے مستقبل کے لائحۂ عمل کو طے کرنا ہوگا۔

امریکا بھارت مشترکہ اعلامیے کا ذکر کیا جائے تو اس کے پیراگراف نمبر 32 میں  تشویشناک مگر غور طلب حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ چین اور روس جو امریکا کے براہِ راست مخالف ممالک ہیں، ان کا اس اعلامیے میں  نام لے کر ذکر تک نہیں کیا  جبکہ پاکستان کو نامزد کرتے ہوئے بالواسطہ نہ صرف مخاطب کیا گیا بلکہ بلا تحقیق بے بنیاد الزامات کا نشانہ بھی بنایا گیا تاکہ بھارت کو خوش کیا جاسکے، جبکہ پاکستان کی جانب سے اس ضمن میں جو سفارتی ردِ عمل دیا گیا، وہ الفاظ کی حد تک تو بہت خوب رہا، لیکن عملی سطح پر ہم اپنے ہی ملک کی خارجہ پالیسی کے دفاع میں  ناکام نظر آتے ہیں کیونکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان کے خلاف کھلم کھلا بیان اور بھارت کا ساتھ دینے پرسفارتی قواعد و قوانین کے عین مطابق   ہم اپنا سفیر بطور احتجاج وہاں سے واپس بلا لیتے، اس طرح سفارتی و سنگین احتجاج کیا جاتا اور  یقیناً ہم چین سے  اس سلسلے میں پسِ پردہ مشاورت کرسکتے تھے۔

قبل ازیں سابق حکومتی دور میں امریکی صدر ٹرمپ نے بھی بھارت کی حمایت او رپاکستان کے خلاف بیان دیا جس پر پاکستان نے امریکا کے خلاف واضح ردِ عمل نہیں دیا ، نہ ہی ان کے سفیر کو ڈی مارش تھمایا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اور بھارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شیر بنتے گئے اور آج صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ سفارتی  افکار و آداب کے خلاف جا کر مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے ، جس کے پسِ پردہ امریکا کا مقصد تو یہ ہے کہ سی پیک کو سبوتاژ کرتے ہوئے چین کے بی آر آئی منصوبے کو گزند پہنچائی جائے اور اس کی دنیا میں معاشی نمو کو دھچکا لگایا جائے جبکہ بھارت کا مقصد امریکا کا ساتھ دینے کے علاوہ پاکستان کو ہر لحاظ سے نقصان پہنچانے کا عمل ہے جبکہ پاکستان نے طویل عرصے تک دہشت گردی کے خلاف بھاری جانی نقصان اٹھاتے ہوئے امریکا کا ساتھ دیا اور دہشت گردی کا قلع قمع کرنے میں ہمارے کردار کو کسی بھی طرح فراموش نہیں کیاجاسکتا جس کا بین ثبوت یہ بھی ہے کہ 2011ء  میں اس وقت کی امریکی وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے سرکاری بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے افغان جنگ جیتنے کے بعد پاکستان کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور اپنے ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس آگئے۔

اگر آج امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانیت سوز ظلم و ستم نظر نہیں آرہا، تو اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی سطح پر امریکا کی خارجہ پالیسی کا اہم  ترین نکتہ چین کی بڑھتی ہوئی معاشی و عسکری طاقت کو روکنا ہے جس کیلئے بھارت کی جیو پولیٹیکل اہمیت خطے میں آج اس سے کہیں زیادہ ہے جتنی کہ ماضی میں تھی اور ماضی قریب میں پاکستان نے افغانستان کے معاملے میں جس طرح امریکا کا ساتھ دیا اور اہمیت حاصل کی، آج امریکا افغانستان کو چھوڑ کر چین پر نظریں جمائے بیٹھا ہے، اس لیے پاکستان کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ امریکا اور بھارت کے مابین کم از کم 5 معاہد ے ہوئے جن میں سے 3 معاہدے دفاعی اہمیت کے حامل ہیں۔

مذکورہ معاہدوں میں کچھ ایسے نکات شامل ہیں جن کے تحت بھارت کو خطے میں تھانیدار بننے  میں تقویت ملے گی، کیونکہ امریکا اس کواسلحہ اور دیگر دفاعی سازوسامان مہیا کرتے ہوئےزمینی، فضائی اور سمندری لحاظ سے طاقتور بنا رہا ہے اور  انڈو پیسفک سے لے کر  ساؤتھ چائنا سی تک مضبوطی فراہم کرنے پر آمادہ ہوچکا ہے جس سے امریکی خارجہ پالیسی کے اہداف کو بھی تقویت ملے گی۔ خاص طور پر ایکسچینج آف جیوپولیٹیکل انٹیلی جنس کے معاہدے بیکا  (BECA)کے معاہدے کے تحت بھارت کو پاکستان اور چین کی فوجی تنصیبات کے محلِ وقوع تک آسانی سے  رسائی مل سکتی ہے کیونکہ امریکا چین کو ہر میدان میں پیش قدمی سے روکنے کیلئے تمام تر عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے سے گریز نہیں کرے گا جس کی ماضی سے بھی مثال لی جاسکتی ہے کہ جب بھارت روس سے تجارت کررہا تھا، جو کہ امریکا کا بڑا مخالف ہے جس کے خلاف روس یوکرین جنگ میں امریکا اور اتحادی ممالک پیش پیش بھی نظر آتے ہیں، امریکا نے بھارت کے خلاف اس تجارت پر بھی کوئی کارروائی نہیں کی، نہ ہی کوئی مذمتی بیان جاری کیا گیا۔

یہی نہیں، بلکہ امریکا کا منصوبہ یہ ہے کہ بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنوایا جائے جسے ویٹو کی پاور حاصل ہوسکے۔ ایسے میں پاکستان کو بھی اپنی خارجہ پالیسی میں عالمی سطح کی سیاسی حرکیات کو سمجھتے ہوئے اہم تبدیلیاں لانی ہوں گی تاکہ عالمی سطح پر اسے اہمیت دی جائے اور اس کے نقطۂ نظر کو تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کی جانب سے امریکا اور بھارت کے مشترکہ اعلامیے جیسے اقدامات کا صرف بیان بازی کی حد تک ردِ عمل کسی بھی صورت کوئی معقول اقدام قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ عالمی سطح پر کھل کر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرےجس کیلئے چین اوردیگر  دوست ممالک خصوصاً ای سی او (اکنامک کو آپریشن آرگنائزیشن) کے اراکین (ماسوائے بھارت) کو ساتھ ملا کر  تمام تر سفارتی آپشنز کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

Related Posts