کیا جمہوری سپیس سکڑ رہی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایک تو ہمیں پٹواریوں کی سمجھ نہیں آتی۔ ان کا انٹیلی جنشیا بھی بسا اوقات اس درجے کی منافقت دکھاتا ہے کہ بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست۔

جب سے شہباز حکومت برسر اقتدار آئی ہے، پی ٹی آئی کے اخیرالمؤمنین نے ملک کو ایک پل کا سیاسی سکون نصیب نہ ہونے دیا۔ شروع شروع میں وزیرِ داخلہ رانا ثناءاللہ نے کچھ آنکھیں دکھائیں مگر جلد ہی وہ بھی ٹھنڈے پڑتے چلے گئے۔ یوں سنجیدہ حلقوں میں یہ بحث چل نکلی کہ آخر حکومت نے خان کو اتنی ڈھیل کیوں دے رکھی ہے؟ یہ سوال سیاسی منظر پر حاوی ہونا شروع ہوا تو نون لیگ کو فکر لاحق ہوگئی، چنانچہ اپنے نامی گرامی یوٹیوبرز، ٹوئٹر بریگیڈ اور کالم نگاروں سے اس کا ایک ہی جواب پیش کروانا شروع کردیا۔

جواب یہ تھا کہ نواز شریف کا مؤقف یہ ہے کہ یہ گند فوج لائی ہے، اسی کو صاف کرنا ہوگا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ہم 2020ء سے مسلسل یہ لکھتے آرہے تھے کہ فوج فتنہ حکومت کو چلتا کرے ورنہ نقصان اتنا زیادہ ہوجائے گا کہ تلافی میں کسی ایک نسل کے پروان چڑھنے جتنی مدت لگ جائے گی۔ ہم چونکہ سیاست میں فوج کی مداخلت کے شدید خلاف ہیں، سو ہم سے 3 سال قبل یہ چبھتا  سوال بھی ہوا کہ ایک طرف آپ کہتے ہیں کہ فوج کی سیاست میں مداخلت غلط ہے اور دوسری طرف اسی فوج سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ فتنہ حکومت کو ہٹائے، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

ہم نے اس کا تحریری جواب دیتے ہوئے عرض کیا تھا کہ جب کوئی سڑک پر کچرا پھینکتا ہے تو لوگ اسی شخص کو پکڑ کر اسی کے ہاتھوں وہ کچرا اُٹھواتے ہیں۔ اگر ملک میں کوئی بہت ہی نااہل حکومت ہوتی مگر ہوتی جمہوری حکومت تو ہم کسی صورت فوج سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ وہ اسے برطرف کرے۔ ہم اس حکومت سے جان چھڑانے کی جمہوری راہیں ہی تجویز کرتے۔ مگر اخیر المؤمنین حکومت کوئی جمہوری حکومت تو نہیں۔ یہ تو سیاسی کوچے میں پھینکا گیا جرنیلی کچرا ہے۔ لہٰذا ہم یہ کچرا اسی سے اٹھوانے کے قائل ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ ہمارا یہ مؤقف نواز شریف کے مؤقف سے بھی قبل کا ہے۔

مگر ہوا یہ کہ جنرل باجوہ تو آخری دم تک اخیرالمؤمنین سے ساز باز میں مشغول تھے، وہ نومبر 2022ء تک پس پردہ اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔ اور اس کے باوجود کھیل رہے تھے کہ فوج بطور ادارہ سیاست سے لاتعلقی کا فیصلہ کرچکی تھی۔ چنانچہ یوتھی کچرا نہ تو شہباز حکومت سمیٹ رہی تھی اور نہ ہی جرنیل۔ بالآخر فوج کی کمانڈ تبدیل ہوئی۔ نئے سربراہ جنرل عاصم منیر کو حسبِ معمول قدم جمانے میں چھ ماہ لگ گئے۔ حالانکہ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر چھ ماہ کا کام تین ماہ میں کر لینا چاہئے تھا۔ خدا کا کرنا دیکھئے کہ اخیرالمؤمنین نے بھی بم کو لات تب جا کر ماری جب جنرل عاصم منیر کے قدم جمانے والے چھ ماہ مکمل ہوچکے تھے۔ یوں کچرا سمیٹنے کا کام بڑے پیمانے پر شروع ہوگیا۔

دلچسپ بات دیکھئے کہ 9 مئی کے ایک دو روز بعد یوٹیوب پر یہ وجاہت مسعود ہی تھے جنہوں نے فخریہ فرمایا تھا کہ یوتھیوں کے خلاف فوج نے سخت ایکشن کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اور اب تین ہفتے بعد اسی یوٹیوب پر وہی وجاہت مسعود یہ شام غریباں منا رہے ہیں کہ فوج کے حالیہ اقدامات کے نتیجے میں جمہوری سپیس کم ہو رہی ہے۔ اور فوج کی سیاسی مداخلت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ رہی ہے۔ صرف وجاہت مسعود ہی کیا،  پورا پٹوار خانہ اس ماتم میں شریک ہے۔

اب ان سے یہ کون پوچھے کہ بھئی آپ سے جب سوال ہوتا تھا کہ چاچو حکومت اخیرالمؤمنین کو لگام کیوں نہیں دیتی؟ تو آپ تو فرماتے تھے کہ نواز شریف کا مؤقف ہے کہ فوج اپنا پھیلایا گند خود سمیٹے۔ لہٰذا چاچو نہیں بلکہ فوج کو اخیر المؤمنین سے نمٹنا ہوگا۔ اب جب انہوں نے نمٹنا شروع کردیا تو آپ کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ جمہوری سپیس کم ہو رہی ہے؟ یہ بات پہلے کیوں نہیں سوچی تھی؟

سوال یہ ہے کہ یہی مؤقف تو خود ہمارا نواز شریف سے بھی قبل کا ہے۔ لہٰذا کیا ہمیں بھی جمہوری سپیس کم ہوتی نظر آرہی ہے؟ کیا ہمیں بھی یہ ٹینشن لاحق ہے کہ فوج کی مداخلت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ رہی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو اس کا حل کیا ہوگا ؟ ہماری رائے میں جمہوری سپیس کم نہیں ہو رہی۔ ہمیں نہیں لگتا کہ فوج سیاست میں مداخلت کر رہی ہے۔ اور ہمارے یوں سمجھنے کی کچھ ٹھوس وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ فوج کا پورا پلان کیا ہے۔ اس کے گند سمیٹنے کی حکمت عملی صرف یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کو توڑ دیا جائے۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ ایک پوری منصوبہ بندی کے تحت عدلیہ سے لے کر بشمول نیب و پولیس ہر ادارے میں یوتھیے بھرتی کئے گئے تھے۔ صرف سرکاری ادارے ہی نہیں بلکہ میڈیا میں بھی معتدل آوازوں کو دبا کر ان کی جگہ یوتھیے بھر دئے گئے تھے۔ لہٰذا صرف پی ٹی آئی کو توڑنا مسئلے کا حل نہیں۔

پی ٹی آئی توڑ بھی دی جائے تو اداروں میں بھرتی یوتھیے اس ملک کے سسٹم میں زہر گھولتے رہیں گے۔ اور کسی بھی جمہوری حکومت کو سکون سے ملک چلانے نہیں دیں گے۔ لہٰذا لازم ہے کہ پروجیکٹ فتنہ خان کے معماروں نے جہاں جہاں جو جو گند بھرا ہے سب کا سب نکال باہر کیا جائے اور ملک کو 2010ء والی پوزیشن پر لے جایا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ فوج صرف ایک ہی نکتے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔ اور وہ یہ کہ ہمارے پچھلوں نے جو گند پھیلایا ہے، یہ گند جہاں جہاں بھی نظر آئے اسے صاف کرنا ہے۔

جمہوری سپیس کم اور سیاسی مداخلت نہ ہونے کی دوسری ٹھوس وجہ سمجھنے کے لئے ایک سوال اور اس کے جواب کو سمجھنا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیاست میں فوجی مداخلت کہتے کسے ہیں اور اس کا اظہار کن شکلوں میں ہوتا ہے؟ اس کا اظہار کیا آغاز ہی یوں ہوتا ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی، آئی ایس آئی وزیر اعظم پاکستان کو بن مانگے مشورے دینے لگتے ہیں۔ یہ مشورے نہ مانے جائیں تو انہی مشوروں کو ڈکٹیشن کی شکل دیدی جاتی ہے۔ ڈکٹیشن بھی قبول نہ کی جائے تو پھر اپنے پالتو کالم نگاروں اور اینکرز کو اشارے اور مواد فراہم کرکے حکومت کے خلاف من گھڑت پروپیگنڈے شروع کروا دیئے جاتے ہیں۔ حکومت ان کے دباؤ میں بھی آئے تو پھر اپنی پالتو سیاسی و مذہبی جماعتوں کو آنکھ مار کر سڑکوں پر آنے کا سگنل دے دیا جاتا ہے۔

حتیٰ کہ جس شخص کی زبان سے خاتم النبیین لفظ بھی ادا نہیں ہوپاتا اسے مجاہدِ ختمِ نبوت بنا دیا جاتا ہے۔ اگر وزیر اعظم نواز شریف جیسا ہو، جو ڈٹا رہے تو عدلیہ کو بھی حرکت میں لے آیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کیا ہوتا ہے، وہ ہمیں بتانے کی ضرورت ہی نہیں۔ ثاقب نثار اور کھوسے جیسے ناسوروں کی وارداتوں سے کون واقف نہیں؟ سو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنرل عاصم منیر اور ڈی جی، آئی ایس آئی نے چاچو شہباز شریف کو مشورے یا ڈکٹیشنز دینی شروع کردی ہیں؟ ہمیں تو اس کے کوئی اثار نظر نہیں آتے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے آثار عوامی سطح پر کیسے نظر آنا شروع ہوتے ہیں؟ جواب یہ ہے کہ وفاقی وزرا اچانک یہ کہنا شروع کر دیتے ہیں کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی۔

یاد ہے مئی 2022ء میں موجودہ حکومت کے وزیروں نے یہ ترانہ شروع کردیا تھا؟ اور اسی لئے شروع کیا تھا کہ جنرل باجوہ فوری الیکشن کی ڈکٹیشن دے رہے تھے۔ تیسری اور آخری وجہ یہ کہ اپنی سیاسی مداخلت کا اتنا عبرتناک نتیجہ بھگتنے والی فوج اب ایک طویل عرصے تک خواب میں بھی سیاسی مداخلت کی غلطی نہیں کرسکتی۔ وہ اب یہ افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ اتنا نقصان فوج کو مشرف کی پالیسیوں نے نہیں پہنچایا تھا جتنا جنرل باجوہ اور فیض حمید پہنچا گئے ہیں۔ اس کی تلافی اب اگلے تین آرمی چیف بھی اپنے ادوار میں کر پائیں تو بڑی بات ہوگی۔

Related Posts