جب بھی ہم دنیا کی خوبصورت ترین اقوام کا ذکر کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں سوئٹزرلینڈ، نیوزی لینڈ، انڈونیشیا، اٹلی، فرانس اور یونان جیسے ممالک کے نام آتے ہیں، لیکن اگر راقم الحروف کے دل سے پوچھیں تو پاکستانی قوم سے زیادہ خوبصورت قوم کوئی اور نہیں ہے۔
آپ نے بہت سے ڈراموں اور فلموں میں یہ مکالمہ ضرور سنا ہوگا کہ خوبصورتی تو دل کے اندر ہوتی ہے۔ وہ خوبصورتی ہی کیا جو نظر آجائے، تو پاکستانی قوم کی یہی سب سے بڑی خوبصورتی ہے کہ وہ نظر آنا پسند نہیں کرتی۔ اسے دیکھنے کیلئے آنکھوں پر حبّ الوطنی کی عینک سجانے کی ضرورت ہے ۔
خوبصورتی ہمارے رویوں میں ہے۔ ہمارے اخلاق، ہماری تہذیب و ثقافت اور عوامی روایات بھی خوبصورت ہیں۔ ایک دن ہم سیاسی اصلاحات کی پرجوش وکالت کرتے ہیں، اپنے ہی ملک کے سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں جس کا ہم سمیت کسی کو کوئی حق نہیں کیونکہ آخر میں ہمیں ووٹ تو انہی کو دینا ہوتا ہے اور اگر نہ دیں تو وہ ویسے بھی منتخب ہوکر اسمبلیوں میں بیٹھ جاتے ہیں۔
یعنی ایک روز ہم سیاستدانوں پر تنقید کرتے ہیں اور دوسرے ہی دن ہماری توجہ اپنی پیاری کرکٹ ٹیم پر چلی جاتی ہے۔ ہم ہر چھوٹنے والے کیچ اور باؤنڈری کی سنجیدگی سے تحقیق کرتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان نے بھارت سے شکست کھائی تو اس کی اصل وجہ کیا تھی؟
ہم اتنی سادہ قوم ہیں کہ ہمارے پاس پیچیدہ چیزوں کو بھی سادہ ترین انداز میں پیش کرنے کا نادر و نایاب فن موجود ہے۔ جب ہم کسی سیاستدان کی حمایت پر اتر آئیں تو ووٹ دیتے وقت کبھی ان کے ماضی کے ریکارڈ کی چھان بین نہیں کرتے اور 2000 روپے پکڑ کر فوراً ووٹ دے دیتے ہیں۔
اصل میں ہم اپنی سادہ دلی کے باعث ان سیاستدانوں کوووٹ دے رہے ہوتے ہیں اور آخر کیوں ہم اپنے انتخابی نتائج پر غور و فکر کرکے معاملات کو پیچیدہ کریں، جبکہ سب کچھ بڑی آسانی اور سادگی کے ساتھ ہوتا چلا جاتا ہے۔ زندگی کو مشکل بنانا بھی تو کوئی انسانیت نہیں ہے۔
جب ٹریفک کی بات کی جائے تو سڑک پر سگنل کی سرخ روشنیاں ہمارے لیے کسی احمق انسان کے مشورے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ ہارن بجانا ہی رابطے کی عالمی زبان سمجھی جاتی ہے۔ ٹریفک کے قوانین کی پاسداری مغربی اقوام کا وطیرہ ہے تو انہیں ہی کرنی چاہئے، اگر پاکستان میں بھی یہ سب ہونے لگے تو پاکستانیوں اور گوروں میں فرق ہی کیا رہ جائے گا؟ کچھ تو فرق ہونا چاہئے۔
سماجی اجتماعات میں ہم پاکستانی سب سے آگے نکل جانا چاہتے ہیں۔ شادیوں میں فضول خرچی ہو یا عید کے موقعے پر عیدیاں دے دے کر جیب کے ساتھ ساتھ گھر کو بھی خالی کرلینا، ہم اپنے اجتماعات میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہم گھروں میں ایسے ایسے پکوان پیش کرتے ہیں کہ مغلیہ دور کے سات رنگ کے کھانے بھی شرما جائیں۔
سب سے زیادہ جو چیز ہم پیتے ہیں وہ چائے ہے اور یہ ہم ہر سال اربوں کی منگوا کر چٹ کر جاتے ہیں اور یہ سلسلہ عشروں سے جاری و ساری ہے۔ یہ وہ جادوئی کپ ہوتا ہے جس کی چسکیاں لیتے ہوئے ہم سیاست سے لے کر کرکٹ تک دنیا کے ہر موضوع پر بغیر سانس لیے مسلسل گھنٹوں بول سکتے ہیں۔
ممکن ہے کہ پاکستانی قوم کی کچھ خوبیاں آپ کو پسند نہ آئی ہوں اور کچھ خامیاں آپ اپنے اندر بھی دیکھنا چاہیں۔ یہ ہماری قوم کی وہ خوبصورتی ہے جو اسے دنیا کی ہر دیگر قوم کے مقابلے میں خوبصورت ترین بناتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دیگر اقوام بھی اس خوبصورتی کو سمجھیں اور اس کے آگے سرِ تسلیم خم کریں۔