گزشتہ کئی برسوں سے پاکستان میں معاشی بدحالی میں اضافے کی رفتار کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، امیر امیر سے امیر تر اور غریب ، غریب سے غریب تر ہوتا چلا جارہا ہے۔
ملکی معیشت بلند شرحِ مہنگائی، بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، گرتی ہوئی برآمدات، بڑھتے ہوئے سرکاری قرضوں اور بے روزگاری میں اضافے کا سامنا کر رہی ہے۔
ایسا محسوس ہوسکتا ہے کہ پاکستان میں معاشی اشاریوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، تاہم کچھ دیر تک غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ دونوں حقائق کے مابین پیچیدہ تعلق موجود ہے۔ ہمارے ہاں موجود دائمی سیاسی مسائل کے باعث معاشی بحران میں اضافہ ہوا ہے۔
معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی میں اضافہ ہے۔ اپریل 2023ء تک افراطِ زر کی شرح 36 اعشاریہ 4فیصد رہی۔ اشیائے ضروریہ کی آسمان چھوتی قیمتوں کے باعث عوامی قوتِ خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اس سے معیارِ زندگی میں گراوٹ بھی آئی ہے۔ مؤثر پالیسی سازی ہوتی اور مہنگائی روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جاتے تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
مارچ 2023ء میں پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1 ہزار 221 ملین تک جا پہنچا جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ہم برآمدات سے کہیں زیادہ اشیاء اور خدمات دیگر ممالک سے درآمد کرتے ہیں، اس تجارتی عدم توازن سے معیشت شدید دباؤ کا شکار ہے۔
اسی وجہ سے غیر ملکی قرضوں پر پاکستان زیادہ انحصار کر رہا ہے اور ملک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں کمی ہورہی ہے۔ اپریل 2023 میں پاکستان کی برآمدات 10 کھرب 76 ارب جبکہ درآمدات 66 کھرب 53ارب رہیں۔
ملک کا سرکاری قرضہ خطرناک حد تک جا پہنچا جو 54 ہزار 354 ارب بنتا ہے۔ بڑھتے ہوئے قرضوں کا یہ بوجھ قومی بجٹ پر اہم دباؤ ڈالتا ہے۔ جو رقم قرض ادائیگی میں چلی جاتی ہے، اسے ترقیاتی منصوبوں اور سماجی بہبود کیلئے مختص کیا جاسکتا تھا۔
حکومت کے اخراجات آمدن سے کہیں زیادہ ہیں جس کی وجہ سے ملک کی مالیاتی پوزیشن غیر مستحکم ہے۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کے باعث جامع مالیاتی اصلاحات اور مؤثر گورننس کے فقدان نے بھی معیشت کی بدحالی میں اضافہ کیا ہے۔
رواں برس پاکستان میں بے روزگاری کی شرح 5.8 فیصد ہوگئی ہے۔ ملازمت کے کم مواقع کے باعث ملکی آبادی کا بڑا حصہ بے روزگاری کا شکار ہے جس سے سماجی چیلنجز میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس سے ملک میں ایک ایسا ماحول بھی جنم لے چکا ہے جو معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع کو کم کرتا ہے۔
ضروری ہے کہ ملکی معیشت جو عدم استحکام اور معاشی بحران کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنس چکی ہے، اسے ملک میں جاری سیاسی مسائل کے حل سے منسلک کرکے معاشی بحالی کی راہ ہموار کرنا ہوگی۔ اس سے پہلے کہ دیر ہوجائے۔