سر سلطان محمد شاہ آغا خان جو آغاخان سوم کے نام سے بھی مشہور ہیں ، برصغیر پاک و ہند کی ایک ممتاز ترین شخصیت تھے ۔
آپ پاکستان کی بانی سیاسی جماعت مسلم لیگ کے پہلے صدر اور تحریکِ آزادئ پاکستان کے پس منظر میں ایک قد آور و متحرک قوت اور گراں قدر شخصیت تھے۔ سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی ہمہ جہت شخصیت میں مسلمانوں کیلئے تصورِ آزادی، آزادی کے احیاء میں کردار، انسانی ہمدردی کی کاوشیں، اسلامی اقدار کی پاسبانی اور عالمی سطح پر بے مثال شہرت ایسی خداداد خوبیاں ہیں جنہیں کسی بھی مرحلے پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ جدوجہدِآزادئ پاکستان ان تمام حقائق کا ایک اہم پہلورہا ہے۔
بطور بصیرت افروز شخصیت اور مسلمانانِ برصغیر کیلئے قد آور رہنما آغا خان سوم نے جدید دنیا میں مسلمانوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے اور مسلمانوں کی رہنمائی کرنے کیلئے اپنی زندگی کا ایک قابلِ قدر حصہ وقف کیا۔ آپ تعلیم کی اہمیت، تعمیر و ترقی اور اسلامی اقدار کے تحفظ پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ مسلمانوں اور مغربی ثقافت کے حوالے سے آغا خان سوم کے نظرئیے کو سر سیّد احمد خان کی طرز پر پرامن بقائے باہمی سے تشبیہ دی جاسکتی ہے جس میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی و ثقافتی شناخت برقرار رکھتے ہوئے موافقت اور انضمام کی طرف توجہ دینے کا درس دیا گیا تھا۔
2 نومبر 1877ء کو کراچی میں سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی پیدائش کے ساتھ ہی برصغیر پاک و ہند میں ایک ایسی عظیم ہستی کا ظہور ہوا جس نے ملک و قوم کیلئے بے بہاخدمات سرانجام دینے کیلئے بے پناہ اقدامات اٹھائے۔ 1885ء میں صرف 7 سال 9ماہ کی کمسنی میں آغا خان سوم کو اسماعیلی جماعت کا 48واں امام بنایا گیا، جس کی وجہ آ پ کے والد آغا خان دوم کی ناگہانی وفات تھی۔بیسویں صدی کی ابتدا میں ہی مسلمانوں کی اسلامی اقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ جانتے ہوئے کہ اقراء باسم ربک الذی خلق وہ پہلی آیت تھی جو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر پہلی وحی کی صورت میں نازل ہوئی جس سے اسلام میں تعلیم کی افضلیت اجاگر ہوتی ہے، 1905ء میں آپ نے آغا خان اسکول کو قائم کرنے کیلئے گوادر کا انتخاب کیا ، جس کا مقصد برصغیر کے مسلمانوں کو جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا تھا اگلے ہی برس یعنی 1906ء میں آغا خان نے آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی مسلمانانِ ہند کیلئے خدمات کی کلیدی ابتدا علی گڑھ تحریک میں معاونت کرنے سے ہوئی۔ تحریک کے ممتاز رکن نواب محسن الملک گرمیوں میں بمبئی جایا کرتے تھے اور ایک بار آغا خان سوم سے ملاقات کی جس کے نتیجے میں دونوں شخصیات میں دوستی ہوگئی اور دونوں اکثر مسلمانوں کی تعلیمی حالتِ زار کے متعلق فکرانگیزو منطقی گفتگو، تبادلۂ خیال اور تشویش کا اظہار کرنے لگے۔ نواب محسن الملک نے علی گڑھ تحریک کے مقاصد سر سلطان محمد شاہ آغا خان کے سامنے پیش کردئیے۔
یہی سبب تھاکہ 1896ء میں سر آغا خان سوم علی گڑھ جا پہنچے جہاں علی گڑھ تحریک کے سربراہ سر سیّد احمد خان سے ملاقات ہوئی۔ جب سرسیّد احمد خان کو سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی آمد کی اطلاع ملی تو بہت خوش ہوئے اور ایک تقریب منعقد کی جس میں فارسی زبان میں اپنا خطبۂ استقبالیہ آغا خان کے اعزاز میں پیش کرتے ہوئے یہ بتایا کہ مسلمان جدید علوم سے نابلد ہونے کے سبب مصیبتوں کا شکار ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کیلئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے راستے ہموار کیے جائیں۔ سر سیّد احمد خان کے استقبالی خطبے کے بعد فارسی زبان میں ہی جواباً تقریر فرماتے ہوئے آغا خان سوم نے کہا کہ مسلمان طلبہ کیلئے برصغیر میں اس سے بہتر تعلیمی ادارہ نہیں ہے بلکہ اسلامی ملت کے دیگر ممالک میں بھی اس معیار کا مدرسہ نظر نہیں آتا ۔ ضروری ہے کہ مسلمان جدید علوم کا مطالعہ کریں۔ اس تقریر کا بے حد اثر ہوا اور آغا خان سوم سے مسلمانوں کے روشن مستقبل کی تابناک امیدیں باندھ لی گئیں۔ غالب امکان یہی ہے کہ سر سلطان محمد شاہ آغا خان نے اپنی تقریرمیں جس تعلیمی ادارے کا ذکر کیا، وہ ابتدائی طور پر ایم اے او کالج تھا جو آگے چل کر علی گڑھ یونیورسٹی جیسی عظیم درسگاہ میں تبدیل کردیا گیا اور مسلمانوں کو مسلسل جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا فریضہ سرانجام دیتا نظر آیا جس سے جدوجہدِ آزادی کو بھی دوام حاصل ہوا۔ اپنی تقریر کے کچھ ہی عرصے بعد ہی یعنی 27مارچ 1898ء کوسر سیّد احمد خان کا انتقال ہوگیا اور نواب محسن الملک مسلمانوں کے تعلیمی سربراہ بن گئے۔ انہوں نے سر سلطان محمد شاہ آغا خان سے تعاون کا کہا تو آغا خان سوم نے ملک بھر میں علی گڑھ تحریک کی تشہیر کا عندیہ دیا اور کہا کہ ہم سب دورہ کریں گے اور مختلف جلسوں کے دوران مسلمانوں کو تعلیم کیلئے آمادہ کیا جائے گا تاکہ جدید تعلیم کو کفر سے مشابہ قرار دینے کے عمومی رجحان کی سرکوبی کی جاسکے۔ سرسلطا ن محمد شاہ آغا خان کو اس بات کا ادراک تھا کہ اگر مسلمانوں میں جدید تعلیم کا فقدان رہا تو وہ دنیاکی باقی اقوام سے بہت پیچھےرہ جائیں گے۔
آغا خان سوم مسلمانوں کو اسلامی اصولوں اور اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدید تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کو اپنانے کی ترغیب دے کر روایت اور ترقی کے مابین توازن قائم کرنے اور مذہبی عقائد پر سمجھوتہ کیے بغیر آگے بڑھ کر بااختیار قوم بننے کا درس دیتےتھے۔آگے چل کر برصغیر پاک و ہند میں دو الگ الگ نظریات برسرِپیکار بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ باہم دست و گریباں ہوئے تو بے جا نہ ہوگا جن میں سے ایک نظریہ اکھنڈ بھارت کا پرچا ر کرتا جبکہ دوسرا مسلمانوں کو ہندوؤں سے الگ قوم کی شناخت دیتے ہوئے مسلمانوں کے الگ وطن کا مطالبہ کرتا نظر آرہا تھا۔ آغا خان سوم بھی دو قومی نظرئیے کے قائل ہوچکے تھے ، جس کی بنیاد پر مسلمانانِ برصغیر نے برطانوی سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوؤں کے ساتھ رہنے کی بجائے الگ ہو کر مملکتِ خداداد پاکستان بنانے کی ٹھان لی اور اس کیلئے تن من دھن کی بازی لگانے کو تیار ہو گئے۔
آزادی کے متوالوں کا جوش و خروش عروج پر تھا اور اس دوران آغا خان سوم مختلف معاشروں اور جماعتوں کے مابین خلیج کم کرنے اور مسلمانوں میں اعتماد و اتحاد کو فروغ دینے کیلئے انتھک محنت میں مصروف و مشغول ہوگئے۔ ان کے غیر متزلزل عزم و ہمت نے رائے عامہ تشکیل دینے اورآزاد مسلم ریاست کے قیام کیلئے عوام میں قبولیت حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اپنی سیاسی کاوشوں سے ہٹ کر بھی آغا خان سوم کی وسیع البنیاد انسانی ہمدردی پر مبنی اقدامات کے باعث بے حد تعریف کی جاتی تھی۔ آپ نے برصغیر پاک و ہند سمیت دنیا بھر میں بے شمار افراد کی زندگیوں کو روشن مستقبل دینے کیلئے متعدد تعلیمی ادارے قائم کیے اوریہ ادارے مستقبل کے رہنماؤں کی پرورش کرنے لگے جو اپنے اپنے معاشروں کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کیلئے تیار تھے۔
شعبۂ صحت میں بھی آغا خان سوم کی خدمات قابلِ قدر رہیں۔ آپ نے ہسپتال، کلینک اور ڈسپنسریوں کی بنیاد رکھی جو دکھی انسانوں کو قابلِ رسائی طبی خدمات مہیا کرکے ان کے دکھوں اور تکالیف کو رفع کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
آپ نے انسانی زندگی کی بیشتر ضروریات کا احاطہ کرتے ہوئے غربت کے خاتمے اور پسماندہ معاشروں کی تعمیر و ترقی کیلئے فعال کام کیا، خوراک کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اسی سلسلے کی ایک کڑی زراعت کے شعبے میں بھی اصلاحات کا آغاز کیا، دیہی ترقی کو فروغ دیا اور مختلف سماجی و اقتصادی منصوبے متعارف کروائے جن کا مقصد مختلف قوموں کے افراد اور برادریوں کی زندگیوں کومفید، کار آمد اور بااختیار بناناتھا اور اسی روایت پر چلتے ہوئے دورِ حاضر میں آپ کے پوتے اور جانشین پرنس کریم آغا خان کی انسان دوست کاوشیں قدرتی آفات کے دوران امداد فراہم کرنے سے لے کر پناہ گزینوں اور بے گھر آبادیوں کی امداد تک مختلف ممالک کی سرحدوں سے آگے تک پھیل چکی ہیں۔
مختصر الفاظ میں اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ آغاخان سوم نے قیامِ پاکستان سے قبل مسلمانوں کیلئے 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام سے لے کر 1947ء میں قیامِ پاکستان تک قائدِ اعظم محمد علی جناح کی معیت میں ایک ایسے رہنما کا کردار ادا کیا کہ جس کی خدمات سے اگر صرفِ نظر کیا جائے تو ایسی صورت میں قیامِ پاکستان اگر نا ممکن نہیں تو پہلے کے مقابلے میں بہت حد تک کٹھن ضرور ہوگیاہوتا ،قائدِ اعظم محمد علی جناح نے بھی کئی مواقع پر سر سلطان محمد شاہ آغا خان کی پذیرائی کی۔ یہاں مختصراً اس بات کا تذکرہ کرنا ضروری محسوس ہوتا ہے کہ آغا خان سوم نے برصغیر پاک و ہند کی قانون ساز کونسلز میں مسلمانوں کی منصفانہ نمائندگی یقینی بنانے کیلئے 1909ء کی مورلے منٹو اصلاحات میں مسلمانوں کے علیحدہ انتخابی حلقوں کو شامل کرنے کی پر زور وکالت کی،آپ نے دو قومی نظرئیے کی تائید کی، جس پر چلتے ہوئے انگریز سامراج کے خلاف متحدہ محاذ کا آغاز ہوا اور جس کے تحت آگے چل کر برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک خودمختار ریاست کا مطالبہ کیا گیا۔ آغا خان سوم نے مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کیلئے بے پناہ اور قابلِ قدر کام کیے اور مختلف پلیٹ فارمز پر مسلمانوں کے تحفظات اور مطالبات کی نمائندگی کی۔ آپ نے مسلمانانِ برصغیر کے سیاسی شعور کو فروغ دیا اور مختلف مواقع پر تحریکِ آزادی کی حمایت کی۔ جدوجہدِ آزادی کی تاریخ میں 1940ء میں قراردادِ پاکستان کی منظوری سے لے کر 1947ء میں قیامِ پاکستان تک کا عرصہ بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ قراردادِ پاکستان میں مسلمانوں کیلئے آزاد ریاست کے قیام کا مطالبہ کیا گیا جس سے پاکستان کے حتمی قیام کی بنیاد فراہم ہوئی۔
1946ء میں امامت کے 60 سال مکمل ہونے پر آغا خان سوم کی ڈائمنڈ جوبلی منائی گئی۔1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد آغا خان سوم نے پاکستان آنے والے مسلمانوں کی ہجرت اور آباد کاری میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ 11 جولائی 1957ء کو آغا خان سوم سوئٹزرلینڈ کے شہر ورسوکس میں علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔
انتقال کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں پر آغاخان سوم کی کاوشوں کے اثرات گہرے اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ ان کے جانشین پرنس کریم آغا خان نے ان اداروں کو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کے راستے پر گامزن کردیا اوران اداروں نے ایسے رہنما، اسکالرز اور پیشہ ور افراد کو جنم دیا جو پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں عرصۂ دراز سے اپنا فعال کردار ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔
تکثیریت، رواداری اور سماجی ہم آہنگی جیسے نظریات آغا خان سوم کی تعلیمات کا نتیجہ ہیں جس سے ایک ایسے ماحول کو فروغ ملا جو متنوع پس منظر اور مختلف النوع خیالات و نظریات کے حامل افراد کو پر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت نہ صرف ساتھ رہنے بلکہ مشترکہ مقاصد کیلئے کام کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
آج جناب پرنس کریم آغا خان اپنے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان کے جانشین بن کر دورِ جدید میں اپنے دادا جان کے جذبۂ انسانیت کو مزید ولولہ انگیزی بخشی اور ان کے نظریات کی روشنی میں تعلیم و صحت اور سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آغاخان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک کے زیر سایہ آغا خان ایجوکیشن سروسز ، آغا خان یونیورسٹی اور آغا خان ہیلتھ سروسز جیسے درجنوں ادارے آج بھی پاکستان کے عوام کی بے لوث خدمت اورسرسلطان محمد شاہ آغا خان کے نظریات کا عملی پرچار کرنے میں روزوشب مصروف ہیں اور جدید بنیادوں پر چلنے والے یہ تمام ادارے معاشرے میں ایک ایسا نمونہ پیش کرتے ہیں جس سے مختلف ممالک میں سرکاری سطح پر بھی استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔