ملک بھر میں آج یومِ تکریمِ شہدائے پاکستان منایا جارہا ہے جس سے قبل 9 مئی کو پاکستان کو ایسے افسوسناک واقعات کا سامنا رہا جس پر پاکستانی قوم کو شدید افسوس ہے، ایسے واقعات کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
گمراہ کن عزائم کے ساتھ ایک مشتعل ہجوم نے عسکری تنصیبات، یادگاروں اور تاریخی عمارات کو نشانہ بنایا جبکہ ایسے واقعات قومی اتحاد، حب الوطنی اور باہمی رواداری کے جذبات کو داغدار کرتے ہیں جس سے کسی بھی قوم کی دلآزاری ہونا ایک فطری سی بات ہے۔
دوسری جانب 9 مئی کے واقعات کے بعد تحریکِ انصاف کے درجنوں سیاسی رہنماؤں نے پارٹی چھوڑ دی اور اس دوران 9 مئی کے واقعات کی مذمت اور پاک فوج سے اظہارِ یکجہتی بھی کیا۔ ایسے موقعے پر یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا پی ٹی آئی ان 9 مئی کے واقعات میں براہِ راست یا بالواسطہ شریک تھی؟ کیونکہ پارٹی چھوڑنے والوں نے تو پی ٹی آئی پر ایسے ہی الزامات عائد کیے ہیں۔
بعض سیاسی رہنما پی ٹی آئی کے پارٹی چھوڑ کر جانے والے رہنماؤں کو اڑتے ہوئے پرندوں سے تشبیہ دے رہے ہیں جو اپنی مرضی سے پارٹی سے نکلے نہیں، بلکہ نکالے گئے ہیں۔ اس پر عمیر نجمی کا ایک شعر حسبِ حال معلوم ہوتا ہے:
نکال لایا ہوں ایک پنجرے سے اک پرندہ
اب اس پرندے کے دل سے پنجرہ نکالنا ہے
یہاں کچھ سیاسی رہنماؤں اور پوری سیاسی جماعت کی اجتماعی صورتحال میں فرق کرنا ضروری ہے جبکہ وفاقی حکومت نے گزشتہ روز ہی پی ٹی آئی پر پابندی لگائے جانے پر غور کاعندیہ دے دیا تھا جس کا پتہ وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے بیان سے چلایا جاسکتا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے 9 مئی کے واقعات کی کھل کر مذمت کی اور یہ کہا کہ ہمارے پارٹی رہنما شدید دباؤ کا شکار ہیں۔ بہتر ہے کہ پی ٹی آئی کے دیگر سیاسی رہنما ان پر تنقید نہ کریں۔ واقعات کے خلاف عمران خان کا یہ مؤقف بلاشبہ قابلِ تعریف ہے تاہم ان پر لگائے گئے الزامات کی سنگینی اس سے کم نہیں ہوتی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ایک طرف تو آپ نے خود فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا اور آپ خود ہی مذمت کر رہے ہیں تاہم یہ تمام تر معاملات تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ کسی بھی الزام کو ثابت کرنے کیلئے ٹھوس شواہد اور ثبوت ضروری ہوا کرتے ہیں جن پر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف عدالت کو ہوتا ہے۔
اس موقعے پر وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں ملک سنبھالنے والی وفاقی حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملک کے عوام سیاسی اعتبار سے اس سے کہیں زیادہ باشعور ہیں جتنا کہ وہ 10 یا 20 برس قبل ہوا کرتے تھے، اس میں سوشل میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
اس لیے اپنے سیاسی فائدے کیلئے حالات کا فائدہ اٹھانے کی بجائے حکومت کو عوامی خدشات دور کرنے کیلئے اپنے طرزِ عمل اور پالیسیوں کو اپ ڈیٹ کرنا ہوگا کیونکہ الزام تراشی سے عوامی اعتماد مجروح ہوتا ہے، اس میں بہتری پیدا نہیں ہوسکتی۔
من حیث القوم ہمیں اپنے فوجی جوانوں کی قربانیوں کو آج خراجِ تحسین پیش کرنا ہے جو ملک دشمنوں کا مقابلہ بہادری اور جواں مردی سے کرتے ہوئے اپنے ملک کی حرمت پر قربان ہو گئے۔ ان کے غیر متزلزل عزم و ہمت، عظیم قربانی اور بے مثال بہادری کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ قومی مفادات کو ترجیح دی جائے۔ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی اتحاد و یگانگت، رواداری اور باہمی تعاون انتہائی ضروری ہے۔
عام شہریوں کو بھی 9 مئی کے واقعات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کے سیاسی منظر نامے کی پیچیدگیوں کو نظر انداز کرکے باہمی ادب و احترام، دیانتداری اور وطن سے محبت جیسے لازوال اصولوں کو اپنانے کی ضرورت ہے، یہی آج کے دن کا خاص پیغام ہے۔