عمران خان کا صدر پاکستان کو لکھا گیا حالیہ خط، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ ملک کے سابق آرمی چیف نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو کنٹرول کرنے کے دعوے کیے تھے اور وزیر اعظم کو قوم کے لیے خطرہ کے طور پر دیکھا تھا، اس کے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
پہلی بات تو یہ کہ اس خط نے پاکستانی عوام میں صدمے اور غیر یقینی کی کیفیت پیدا کردی ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان میں ایک انتہائی قابل احترام شخصیت ہیں، اور ان پر ایسے بیانات دینے کے الزامات نے ملکی سیاست میں فوج کے کردار کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے۔ اس نے فوج اور سویلین حکومت کے درمیان تعلقات کے بارے میں شدید بحث و مباحثے کو جنم دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا فوج سیاسی معاملات میں مداخلت کرکے اپنی حدود سے تجاوز کر رہی تھی؟
دوسری بات یہ کہ عمران خان کے خط نے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا کی خاصی توجہ حاصل کی ہے۔ پاکستان کی اہم ترین سیاسی شخصیات میں سے ایک کے طور پر جنرل باجوہ کے خلاف عمران خان کے الزامات نے ملک بھر میں اور اس سے باہر بھی اہمیت حاصل کی ہے۔ خط نے فوج کی طرف سے سیاسی مداخلت کے معاملے کی طرف توجہ دلائی ہے اور حکومت پر کارروائی کے لیے دباؤ ڈالا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ خط میں پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری جدوجہد کو اجاگر کیا گیا ہے۔ عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی 2018 سے اقتدار میں تھی، لیکن اپوزیشن نے الزام لگایا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے نیب کا استعمال کر رہی ہے۔ خط میں لگائے گئے الزامات صرف جلتی پر تیل کا کام کرتے ہیں اور ملک میں پہلے سے کشیدہ سیاسی ماحول مزید غیر مستحکم ہو گیا ہے۔
خط کا چوتھا اثر یہ ہے کہ اس نے یہ احساس پیدا کیا ہے کہ عمران خان ایک ایسے وزیر اعظم تھے جن کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا۔ عمران خان کے آرمی چیف کے حکومتی معاملات میں مداخلت اور اپنے حلف کی پاسداری نہ کرنے کے انکشاف نے ملک میں طاقت کے توازن پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ عمران خان ایک بے اختیار وزیر اعظم رہے جو اپنا اختیار استعمال نہیں کر سکتے تھے اور فوج ہی حکومت کے پیچھے اصل طاقت رہی۔
خط کا پانچواں اثر یہ ہے کہ اسے عام آدمی ایک سابق وزیراعظم کے انصاف کے مطالبے کے طور پر دیکھے گا۔ عمران خان کے خط میں اس حقیقت کو اجاگر کیا گیا کہ آرمی چیف نے مبینہ طور پر قومی احتساب بیورو (نیب) کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ کیا تھا، جو بدعنوانی کے مقدمات کی تحقیقات کا ذمہ دار ہے۔ اس سے نیب کی آزادی کے بارے میں خدشات بڑھ گئے ہیں اور کیا یہ واقعی طاقتوروں کا احتساب کرنے کے اپنے مینڈیٹ پر عمل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے؟
لہٰذا اس خط نے نہ صرف عمران خان کے لیے بلکہ ملک میں کرپشن سے متاثر ہونے والے تمام عام لوگوں کے لیے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ عام آدمی کو یہ انصاف کون فراہم کرے گا، کیونکہ عمران خان کے خط سے حکومت، عدلیہ اور نیب کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
آخر میں، عمران خان کے صدر کو لکھے گئے خط کا پاکستانی معاشرے پر خاصا اثر ہوا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ پیش رفت کس طرح سے ہوتی ہے، لیکن ایک بات واضح ہے کہ پاکستان کا سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے، اور آنے والے دن ملک کی مستقبل کی سمت کا تعین کرنے کے لیے اہم ہوں گے۔