اگرچہ پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ سے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز کا مسودہ مل گیا، تاہم حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین معاملات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، یہ فی الحال واضح نہیں۔
اب بھی پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے پر الجھن برقرار ہے جبکہ حکومت اسے آئی ایم ایف کے ساتھ اختلافات کے تصفیے سے تعبیر کرتی نظر آتی ہے۔ پھر بھی معاہدے کو حتمی شکل دئیے بغیر آئی ایم ایف مشن کا ملک سے نکل جانا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اب بھی دونوں فریقین کے مابین وسیع خلاء باقی ہے۔
اسٹاک مارکیٹ کا رجحان حسبِ معمول دگرگوں ہے جبکہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ملک کی مالی مشکلات میں اضافے کا باعث بنا ہوا ہے۔ سرمایہ کاروں نے آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی بحالی کی جو امید کی تھی، وہ کھو گئی۔
کل 10 روزہ قرض مذاکرات پر آئی ایم ایف کی جانب سے احتیاط سے تیار کردہ مختصر اختتامی بیان ملکی و بیرنوی عدم توازن کو دور کرنے کے اقدامات پر کافی پیشرفت کا عندیہ تو دیتا ہے تاہم پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین خلا بھی اس سے واضح ہوا ہے۔
آئی ایم ایف کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی مالی پوزیشن مستحکم کرنے کیلئے مستقل ریونیو اقدامات کی ضرورت ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ آئی ایم ایف دونوں فریقین کے مؤقف کی واضح تصویر پیش کرنے میں ناکام رہا ہے۔
ہم جو کچھ جانتے ہیں، وہ یہ ہے کہ حکومت 170 ارب کے ٹیکس لگانے، گیس اور توانائی کی سبسڈی کم کرنے، ڈیزل پر پی ڈی ایل کو 10 روپے سے 50 روپے تک بڑھانے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی رقم 40 ارب روپے تک بڑھانے اور گیس سیکٹر کے گردشی قرض کو موجودہ سطح پر محدود کرنے سے اتفاق کیا ہے۔
پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدے پر دستخط کرنے سے قبل درکار اقدامات پر تبادلۂ خیال کرنے کیلئے ایم ای ایف پی پر بات چیت عملی طور پر پیر سے جاری رہے گی۔
امید کی جاسکتی ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف اگلے چند دنوں میں اختلافات کو ختم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ اس کے باوجود ورچؤل اجلاسوں کا نتیجہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ میز پر موجودہ مسائل پر حکومت کی پوزیشن کتنی واضح ہے۔
فی الحال ہمیں یہ بالکل علم نہیں کہ آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدے سے عوام کو کیا فائدہ ہوگا؟ تاہم یہ واضح ہے کہ معیشت کو دوبارہ پٹڑی پر لانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے، وہ عام پاکستانی کیلئے مشکلات میں مزید اضافے کا باعث بنیں گے۔