نوازشریف کی بیرون ملک روانگی پر حکومت اور عدلیہ میں تنائو

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سابق وزیر اعظم نواز شریف کو علاج کے لئے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دینے کے  فیصلے کے بعدحکومت اور عدلیہ کے درمیان ایک تنائو کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے، حکومت کی جانب سے عدلیہ پر الزامات نے کشیدگی کو بڑھاوادینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

وزیر اعظم عمران خان لاہور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر ناراض ہیں جس میں عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو بغیر کسی شرط کے بیرون ملک سفر کرنے کی اجازت دی تھی۔ عدالت نے حکومت کی جانب سے سابق وزیراعظم کوبیرون ملک پرواز کی اجازت کے لئے اربوں روپے کے بانڈ جمع کروانے کی شرط کو کالعدم قرار دے دیا۔

وزیراعظم عمران خان نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملکی نظام عدل کاتاثر یہی ہے کہ یہاں طاقتور کے لیے ایک قانون ہے اور کمزور کے لیے دوسرا، عدلیہ عوام میں اپنا اعتماد بحال کرے، چیف جسٹس کھوسہ اور ان کے بعد آنے والے جسٹس گلزار ملک کو انصاف دے کر آزاد کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لیئے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا،سیاسی مخالفین کو سزائیں دلوانے کیلئے فون پر فیصلے لکھوائے گئے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حکومت سے جو مدد چاہیے حکومت تیار ہے لیکن اس ملک میں عدلیہ نے عوام کا ااعتماد بحال کرنا ہے کہ یہاں سب کیلئے ایک قانون ہے۔

وزیراعظم کی جارحانہ تقریر نے چیف جسٹس آف پاکستا ن جسٹس آصف سعید کھوسہ کو بھی بولنے پر مجبور کیا۔ گزشتہ روز ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے وزیراعظم کومخاطب کئے بنا کہا کہ پاکستان میں  ایک خاموش انقلاب آچکا ہے، 2009سے پہلے کی عدالت سے موازنہ نہ کریں، ہمارے سامنے کوئی چھوٹا بڑا نہیں،ایک وزیر اعظم کو سزا دی، دوسرے کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ دیا۔ایک سابق صدر کے خلاف فیصلہ ہونےجا رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ 2009 کے بعد سابق فوجی حکمران پرویزمشرف اور وکلاکی تحریک کے دور کے بعد عدلیہ آزاد ہے اور انہوں نے ساتھ ہی وزیر اعظم کو بھی خبردار کیا گیا تھا کہ وہ عدلیہ کی غیر جانبداری یا اتھارٹی پر سوال اٹھاتے ہوئے متنازعہ بیانات دینے سے باز رہیں۔

نوازشریف کے بیرون ملک علاج کیلئے جانے کے حوالے سے پاکستان میں ایک ہیجانی کیفیت برپا تھی، ہر طرف ایک ہاہاکار مچی ہوئی تھی ، حکومت سمیت کوئی ادارہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا ایسے میں لاہور ہائیکورٹ نے ایک متناسب فیصلہ کرکے حکومت اور نوازشریف کو ساکھ بچانے کا موقع دیا جس کا برملا اظہار گزشتہ روز چیف جسٹس نے اپنی تقریر میں کیا کہ نوازشریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت خود وزیراعظم عمران خان نے دی ہے عدلیہ کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔

وزیراعظم عمران خان نے معاملے میں بردباری کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اپنے جارحانہ بیان بازی سے ایک بار پھر اداروں کے درمیان ایک دیوار کھڑی کردی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم عمران خان معاملے کے حل پر چین کی سانس لیتے اور ملک میں موجود دیگر مسائل پر توجہ مرکوز کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ایک بار پھر اداروں کے درمیان  تنائو کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔

جہاں تک چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی بات ہے تو وہ 21 دسمبر کو ریٹائر ہورہے ہیں اور ان کے دور کا آخری مہینہ ان کی میراث طے کرے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے کیریئر میں بے شمار ایسے فیصلے کےکئے جن کی بنیاد پر انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف کیخلاف کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ہی گاڈ فادر جیسے الفاظ استعمال کئے اور نوازشریف کو بطور وزیراعظم نااہل کرنیوالے بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ ہی تھے۔ حکومت نے ایک طرف نوازشریف کے حوالے سے فیصلے کو قبول کرلیا ہے اور فیصلے کیخلاف اپیل میں نہ جانے کا قصد کیا ہے تو دوسری طرف ایسے متنازعہ بیانات اداروں کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔

حکومت کو اپنے ہی اداروں کیخلاف بیان بازی سے گریز کرناچاہیے اور عدلیہ کو بھی بیانات کی بجائے اپنے فیصلے کے ذریعے بولنا چاہیے۔

Related Posts