مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دنیا پر مغربی تسلط کی طویل گرفت بہت تیزی سے ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ کسی بھی بڑے سیاسی نظام کے زمین بوس ہونے میں دو میں سے کوئی ایک چیز فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے۔

ایک یہ کہ وہ نظام بڑے معاشی بحران سے دوچار ہوجائے اور اس پر قابو نہ پا سکے۔ یا یہ کہ اس نظام کی معاشرت انتشار سے دوچار ہو جائے۔ معاشی تباہی کی مثال سوویت یونین ہے تو معاشرتی انتشار کی علامت مسلم عروج کا خاتمہ ہے۔ ذرا ایک نظر مغرب پر ڈالئے، اسے تو بیک وقت ان دونوں چیلنجز کا سامنا ہے۔ نسل پرستی کی تحریکوں نے اسے معاشرتی و سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے تو ایک بڑا معاشی بحران ان کے دروازوں پر دستک دے رہا ہے۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار میں آنا ایک روٹین کا سیاسی واقعہ تھا۔ ایسا سوچنے والے غلطی پر ہیں۔ سیاسی امور کو سمجھنے کا درست راستہ یہ ہے کہ واقعات پر ان کے تاریخی تسلسل میں غور کیا جائے۔ جب اس کی عادت پڑ جائے تو پھر آنے والے حالات کا پیشگی اندازہ لگانا دشوار نہیں ہوتا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا اقتدار درحقیقت باراک اوباما کے اقتدار میں آنے کا ردعمل تھا۔ اگر آپ امریکی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران امریکہ میں نسل پرستی کمزور ہوتی چلی گئی تھی۔ اس عرصے میں ایسی قانون سازی تسلسل سے ہوئی جس کے نتیجے میں سیاہ فاموں کو ہی نہیں بلکہ دیگر غیر سفید فام نسلوں کو بھی حقوق ملے۔ اس کے نتیجے میں باور کیا گیا کہ امریکہ میں نسل پرستی کا آخری باب لکھ دیا گیا۔ مگر بیسویں صدی کے اختتام تک سفید فام نسل پرستی بہت کمزور شکل میں سہی پر موجود ضرور رہی۔ چنانچہ نوے کی دہائی کا اوکلوہاما سٹی بم دھماکہ اس کی بڑی مثال ہے۔

جب 2008ء میں باراک اوبامہ برسر اقتدار آئے تو لبرلز نے بجا شادیانے بجائے کہ بالآخر ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں اسی امریکہ میں ایک سیاہ فام صدر وائٹ ہاؤس میں آ بیٹھا ہے جس امریکہ میں صرف پچاس سال قبل سیاہ فاموں کو ان ریستورانوں، دوکانوں اور سواریوں میں بیٹھنے کی اجازت نہ تھی جہاں سفید فام تشریف فرما ہوں۔ لبرلز کی یہ برحق خوشی اپنی جگہ مگر ردعمل میں سفید فام نسل پرست تحریک اس تیزی سے مضبوط ہوتی چلی گئی کہ اسی باراک اوباما کے 8 سالہ دور حکومت کے اختتام پر وائٹ ہاؤس میں ایک نسل پرست سفید فام صدر آ بیٹھا۔ یہی صورتحال یورپ میں بھی پیش آئی۔ اور ہم دیکھ سکتے ہیں کہ وہاں بھی کئی ممالک میں نسل پرست حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ صرف یورپ ہی کیا آپ بھارت کو دیکھ لیجئے، وہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ان کا ترنگا آج کل برہمن راجواڑے پر لہرا رہا ہے۔

اگر آپ غور کیجئے تو ہمارے ہاں اس عالمی صورتحال کو اس سنجیدگی سے نہیں دیکھا گیا جس سنجیدگی سے اسے دیکھنا چاہئے تھا اور چاہئے ہے۔ وجہ اس کی کیا ہے؟ دو وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے اطلاعاتی نظام پر ان کی گرفت ہے جن کی شامیں مغربی سفارتخانوں میں گزرتی ہیں۔ پھر امریکہ کے پرسپشن منیجمنٹ فنڈ کا خزانہ الگ ہے جو باقاعدہ میڈیا ہاؤسز تک کو اپنے حق میں مینج کرتا ہے۔ دوسری وجہ یہ کہ سول سوسائٹی کے نام سے جو عیاش طبقہ طاقت کے مراکز پر اثر رکھتا ہے، ان کا گمراہ کن پروپیگڈا الگ چلتا ہے۔ یوں ہماری نوجوان نسل کو اس یک طرفہ گمراہ کن پروپیگنڈے کا سامنا ہوتا ہے جو بیک وقت ہمارے مین سٹریم میڈیا اور سول سوسائٹی کی مدد سے سوشل میڈیا سے آرہا ہوتا ہے۔

ایک دو مثالوں سے اندازہ لگایئے کہ یہ پروپیگنڈا کس حد تک گمراہ کن ہوتا ہے۔ مثلا دیسی لبرلز کی جانب سے ہمیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مغرب میں سیاست کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں اور مذہب کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں۔ جبکہ زمینی حقیقت یہ ہے کہ حجاب کے خلاف مغربی حکومتوں نے اقدامات کئے یا نہیں؟ کیا یہ مذہب میں سیاست کی مداخلت نہ تھی؟ یہ تو چلئے مسلمانوں سے ان کے عناد کی مثال ہوئی۔ ذرا خود ان کے داخلی معاملے کو بھی دیکھ لیجئے۔ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے خلاف فیصلہ دیا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ فیصلہ مذہبی بنیاد پر دیا گیا ہے؟ ہم میں سے بیشتر نہیں جانتے ہوں گے کہ امریکی سپریم کورٹ میں اس وقت کنزرویٹو ججز کی اکثریت قائم ہوچکی ہے۔ اور کنزرویٹو عیسائی عقیدے کے مطابق ہی اسقاط حمل کو جرم سمجھتے ہیں۔

یہی کنزرویٹوز ہیں جن کی سیاست میں نمائندگی ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کرتی ہے۔ جانتے ہیں ان کے سیاسی نظریات میں مزید کون کونسے “مذہبی ٹچ” شامل ہیں ؟ یہ ہم جنس پرستوں کی شادی کے خلاف ہیں۔ یہ خاندانی نظام کے حامی اور زنا کے خلاف ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ پبلک لائف میں مذہب کا عمل دخل بڑھانا ہوگا۔ اور معاشرے کی اٹھان مذہبی خطوط پر ہی ہونی چاہئے۔ اب اگر آپ غور کیجئے تو 2020ء کے انتخابات میں لبرل امیدوار جو بائیڈن نے 8 کروڑ 12 لاکھ ووٹ حاصل کئے جبکہ کنزرویٹو امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے 7 کروڑ 42 لاکھ ووٹ لئے۔ گویا امریکی معاشرے میں سات کروڑ سے زائد ووٹرز سیاست میں مذہب کے عمل دخل کے قائل ہیں۔ لیکن ہمارا دیسی لبرل ہمیں کیا بتاتا ہے؟ صرف یہ  کہ مغربی سیاست میں مذہب کا عمل دخل نہیں ہے یعنی دیسی لبرلز آپ کو یہ نہیں بتاتے کہ جب ریپلکنز اقتدار میں ہوتے ہیں تو یہ انہی کی حکومت ہوتی ہے جو سیاست میں مذہب کے عمل دخل کے قائل ہیں۔

ذرا ایک نظر امریکی فوج پر بھی ڈالتے جایئے۔ آپ نے لیفٹیننٹ جنرل مائیکل فلن کا نام تو سنا ہوگا۔ یہ جولائی 2004ء سے جون 2007ء تک افغانستان اور عراق کی جنگوں میں جوائنٹ سپیشل آپریشنز کمانڈ کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان جنگوں کے دوران یہ اپنی سپاہ سے مخاطب ہوتے تو انہیں کہتے کہ یہ عام جنگ نہیں۔ یہ مقدس جنگ (یعنی صلیبی جنگ) ہے اور ہمیں اسے ہر حال میں جیتنا ہے۔ اس دوران یہ باقاعدہ اینٹی مسلم پروپیگنڈہ کیا کرتے۔ کیا پینٹاگون اس سے لاعلم تھا؟ کیا اس کے خلاف کوئی ایکشن ہوا؟ جب حکومت ہی امریکہ میں اس ریپبلکن بش کی تھی جو خود افغانستان کی جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسے مقدس جنگ قرار دے چکا تھا تو ایکشن کیسے ہوتا؟

مگر آپ تماشا دیکھئے کہ جب باراک اوباما کی شکل میں لبرل اقتدار شروع ہوا تو باراک اوباما نے مائیکل فلن کو لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی دے کر ستمبر 2011ء میں نیشنل انٹیلی جنس کا اسسٹنٹ ڈائریکٹر بنا دیا۔ اور پھر اسی اوباما نے جنرل مائیکل فلن کو اپریل2017ء میں ڈائریکٹر ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی کے عہدے پر فائز کردیا۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ یہ ہم محض اڑتی باتیں کر رہے ہیں تو ایسا ہرگز نہیں۔

عراق میں صلیبی جنگ لڑنے والے اس کمانڈر کے بارے میں یہ ساری تفصیلات امریکہ کے ہی لبرل نیوز چینل پی بی ایس نے اپنی اس ایک گھنٹے کی ڈاکومنٹری میں بتائی ہیں جس کا ٹائٹل ہی “Michael Flynn’s Holy War” ہے۔ جانتے یہ لبرل چینل ہمیں اب یہ سب کیوں بتا رہا ہے؟ کیونکہ ریٹائرمنٹ کے بعد آج کل یہ مائیکل فلن امریکی لبرلز کے خلاف اپنی پرائیویٹ مقدس جنگ کی تیاری کر رہا ہے۔

تضادات اور منافقت بھرا یہ مغرب حالیہ عرصے میں تیزی سے دنیا پر اپنا کنٹرول کھوتا چلا جا رہا ہے۔ ہم نے اکتوبر 2020ء میں لکھا تھا کہ افغانستان سے انخلاء کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادی ساؤتھ چائنا سی میں چین کے خلاف محاذ آرائی کی تیاری میں ہیں۔ اور پھر 2021ء میں انہوں نے ساؤتھ چائنا سی میں بڑا فوجی اکٹھ کیا بھی۔ دو درجن سے زائد ممالک کے بحری بیڑے ساؤتھ چائنا سی میں ہم سب نے دیکھے۔ لیکن ان کی توقع کے بالکل برخلاف روس نے یوکرین میں سپیشل ملٹری آپریشن شروع کرکے انہیں وہاں گھسیٹ لیا۔ جوش میں آکر انہوں نے روسی معیشت کی کمر توڑنے کے لئے اس پر معاشی پابندیاں لگائیں مگر عجیب پابندیاں تھیں، لگیں روس پر اور کمر لگانے والوں کی ٹوٹنے لگی۔

ابھی ڈیڑھ دو ماہ قبل ہی یہ فتح کی پیشنگوئیاں فرما رہے تھے۔ نیٹو سیکریٹری جنرل جینز سٹولنبرگ نے کہا تھا کہ یہ فیصلہ میدان جنگ میں ہوگا اور اب یہ روس سے مذاکرات کی خیرات مانگ رہے ہیں۔ جانتے ہیں کیوں؟ کیونکہ جنگ اور ان کی پابندیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ روسی کرنسی روبل 2022ء کے دوران سب سے بہتر پرفارمنس دینے والی کرنسی ثابت ہوگئی ہے۔ روسی آئل کی فروخت نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ اور صرف 10 ماہ میں روس یوکرین کے چھ ہزار ٹینک اور عسکری گاڑیاں تباہ کرکے اسے اپاہج کرچکا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکی کارخانے ایک ماہ میں 15 ہزار گولے بنانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اور یوکرین نے جنگ کے دوران سات ہزار گولے یومیہ داغے ہیں۔ یوں یوکرین کے پاس بارود ختم ہے اور سپلائی دینے والوں کے کارخانے سپلائی دینے سے عاجز۔

یوکرین کا 40 فیصد بجلی کا نظام تباہ ہوچکا ہے۔ 18 ارب ڈالر امریکہ اس جنگ میں پھونک چکا اور 37 ارب مزید پھونکنے کی تیاری میں تھا کہ اپنی ہی فوج کے سربراہ جنرل مارک ملی نے خبردار کردیا کہ یہ جنگ ہم نہیں جیت سکتے، بہتر ہے کہ روس سے بات چیت شروع کی جائے۔ فرانس کے صدر میکرون نے تو صاف صاف کہدیا ہے کہ ہمیں روسی شرائط قبول کر لینی چاہئیں۔ مگر روس نے مذاکرات سے قبل ہی یہ کہہ کر ان کے ہوش اڑا دیئے ہیں کہ اب ہمارا مطالبہ یہ بھی ہے کہ نیٹو کو انہی حدود میں واپس دھکیلا جائے جہاں یہ 1997ء میں تھا۔

اس دوران چینی صدر شی جن پنگ سعودی عرب کا وہ تاریخی دورہ کرچکے جسے خود چینی عرب دنیا کے حوالے سے اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سرگرمی قرار دے رہے ہیں۔ اربوں ڈالرز کے معاہدے ہوئے ہیں مگر سب سے اہم معاہدہ وہ ہے جو چین کی ہواوے ٹیلی کیمونیکشنز کے ساتھ ہوا ہے۔ یہ وہ کمپنی ہے جس پر امریکہ اور اس کے اتحادی پابندی لگا چکے ہیں۔ سعودی عرب نے یہ معاہدہ کرکے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ٹھینگا دکھا دیا ہے۔اسی دوران برکس کی صورت نیا اتحاد تیزی سے وسعت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا یہ عالم ہے کہ ہنگری نے یورپی یونین کے یوکرین کے لئے بنائے گئے اربوں یوروز کا پیکج ویٹو کردیا ہے۔ اٹلی اور فرانس ایک دوسرے کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ جرمنی میں تین روز قبل سابق شاہی خاندان کے درجنوں افراد یہ کہہ کر گرفتار کر لئے گئے ہیں کہ یہ بغاوت کی سازش کر رہے تھے۔

برطانیہ کو تاریخ کی سب سے شدید سردی اور لوڈ شیڈنگ دونوں کا بیک وقت سامنا ہے۔ اسی دوران بیلجیم میں یورپین پارلیمنٹ کے اہم سوشلسٹ ارکان کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک عرب ملک سے بھاری رشوت لے کر اس ملک کے مفادات کے لئے سیاسی موقف اختیار کئے ہیں۔ گویا دنیا پر راج کرنے والے مغرب کی صفوں میں افرا تفری اور خلفشار ہے جبکہ ولادیمیر پیوٹن نے اپنے فوجی افسران کے جام سے جام ٹکرا کر یوکرین میں ان کی بہترین کار کردگی پر انہیں شاباش دی ہے۔ روس کی پندرہ ڈویژن فوج اگلے ماہ یوکرین میں داخل ہونے کی تیاری کر رہی ہے۔ اور اسی کے تدارک کے لئے مغربی اتحاد اب سیز فائر کرکے بات چیت پر زور دے رہا ہے۔

بات چیت سے تو پیوٹن کسی صورت انکار نہیں کرے گا لیکن وہ جنگ بندی کسی صورت نہیں کرے گا۔ کیونکہ روس جانتا ہے کہ سیز فائر کے دوران ہی یوکرین کی قوت مجتمع کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔ اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ دنیا میں رونما ہوتی ان بڑی تبدیلیوں پر دیسی لبرلز کا موقف کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں، ان کا کیمپ سناٹے میں ہے۔ کیونکہ ایک کلو پروپیگنڈے کے لئے بھی پاؤ بھر زمینی حقیقت درکار ہوتی ہے۔ ایسی حقیقت جو کم از کم دکھتی کامیابی ہو۔ اور کامیابی وہ جنس ہے جو ان دنوں مغرب کے دامن میں چھٹانک بھر بھی موجود نہیں۔

Related Posts