ماحولیاتی انصاف کا بیانیہ

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی بھی ملک کا بیانیہ اس کی خارجہ پالیسی کا عکاس ہوتا ہے اور اسی بیانیے کی بنیاد پر ہی دیگر ممالک سے تعلقات قائم اور بعض ممالک سے دشمنی یا رقابت کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی اس وقت رونما ہوئی جب عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا کر شہباز شریف کو ملک کا نیا وزیر اعظم بنایا گیا۔ دونوں وزرائے اعظم کے بیانات میں زمین آسمان کا فرق پایا جاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم کے اس وقت کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے ایک موقعے پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جو بائیڈن کے ٹیلیفون کا انتظار نہیں کر رہے۔ امریکی صدر کی مرضی ہے، فون کرنا ہے کریں، نہیں کرنا تو نہ کریں۔

پاکستان کی 7عشروں پر محیط تاریخ گواہ ہے کہ اس سے قبل کسی مشیرِ سلامتی نے امریکا سے تعلقات کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ایسا جارحانہ مؤقف کبھی نہیں اپنایا جبکہ موجودہ وزیر اعظم ایسے کوئی نظریات نہیں رکھتے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا دورہ بھی سامنے رکھ لیجئے۔

غور فرمائیے تو موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا سے تعلقات کی بحالی کیلئے مختلف شخصیات سے نہ صرف ملاقاتیں کیں بلکہ پاکستان کی سابقہ خارجہ پالیسی کو اپنی پٹڑی پر واپس لے آئے۔ ایک موقعے پر ان کا کہنا تھا کہ پاک امریکا سفارتکاری واپس آگئی ہے۔

دلچسپ طور پر ایک جانب تو پاکستان نے امریکا سے تعلقات کے معاملے میں جارحانہ کے مقابلے میں عاجزانہ پالیسی اپنائی اور امریکی صدر جوبائیڈن سمیت دیگر اعلیٰ شخصیات سے تعلقات کو اسی طرز پر بحال کرلیا جبکہ دوسری جانب پاکستان اپنے خودمختاری کے مؤقف سے بھی پیچھے نہیں ہٹا۔

راقم الحروف نے جب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور وزیر اعظم شہباز شریف کے ان بیانات پر غور کیا کہ پاکستان کو عالمی برادری سے بھیک نہیں بلکہ ماحولیاتی انصاف چاہئے تو پاکستان ایک بار پھر خارجہ پالیسی کے محاذ پر ایک خودمختار ملک کے طور پر کھڑا نظر آیا۔

اگر قارئین کو یاد ہو تو وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے دورۂ امریکا کے دوران یہ بات کہی کہ پاکستان میں سیلاب سے 3 کروڑ افراد متاثر ہوئے اور 1600 سے زائد جاں بحق ہوئے۔ ہمیں عالمی برادری سے امداد نہیں بلکہ انصاف چاہئے۔

کچھ اسی قسم کی بات وزیر اعظم شہباز شریف نے دورۂ امریکا کے بعد برطانوی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عالمی برادری سے مدد کی بھیک نہیں بلکہ ماحولیاتی انصاف چاہتا ہے۔ مالی معاونت قرض کی صورت میں نہیں ہونی چاہئے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہم تباہ کن سیلاب کے بعد مدد کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ عالمی برادری کو سیلاب زدگان کیلئے بڑا منصوبہ پیش کرنا ہوگا۔ ہمیں شدید بارشوں کے بعد بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔

خارجہ پالیسی اور بیانیہ اپنی جگہ لیکن اپنے حالیہ بیان میں آرمی چیف نے ایک پتے کی بات کہی ہے جس پر وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ملک کی بیمار معیشت بحال کرنا معاشرے کے ہر حصہ دار کی ترجیح ہونی چاہئے۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مدت مکمل ہونے پر عہدہ چھوڑنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مضبوط معیشت کے بغیر نہ قوم اپنا ٹارگٹ حاصل کرسکے گی اور نہ ہی اس کے بغیر سفارتکاری ہوسکتی ہے۔ سیلاب زدگان کی امداد کیلئے شکر گزار ہیں۔

Related Posts