سرکاری اداروں کے حصص کی فروخت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ جی 2 جی کی بنیاد پر دوست ممالک کو بائی بیک کے آپشن کے ساتھ سرکاری اداروں کے حصص کی فروخت کی اجازت دینے کیلئے قوانین میں ترمیم کرے گی۔

حکومت نے یہ قدم اس لئے اٹھایا کیونکہ پاکستان کے دوست ممالک نے مبینہ طور پر صرف یقین دہانی پر پاکستان کو مالی امداد دینے سے انکار کیا ہے اور اس امداد کے خلاف سرکاری اداروں میں حصص مانگے ہیں۔

وفاقی حکومت کا یہ فیصلہ بنیادی طور پر 4 کھرب ڈالر کے فنانسنگ گیپ کے ایک حصے کو پورا کرنے میں مدد کرے گا جس کا تخمینہ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے لگایا ہے۔ اس کو ممکن بنانے کے لیے وفاقی کابینہ نے بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022ء کی منظوری دے دی ہے کیونکہ موجودہ پرائیویٹائزیشن قانون جی 2 جی کی بنیاد پر ایسے تجارتی لین لین دین کی اجازت نہیں دیتا۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو یقین ہے کہ اس قانون کے متعارف ہونے سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اعتماد ملے گا اور ترقیاتی معاہدوں میں جی 2 جی کی بنیاد پر غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوگا۔ مزید برآں، یہ پہلی بار ہے کہ جی 2 جی معاہدوں کے تحفظ اور انھیں شفاف بنانے کیلئے عملی اقدامات کیے جارہے ہیں۔

بلاشبہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے سے مسائل میں کچھ کمی ضرور ہوگی، حکومت کو اولین ترجیح ان اداروں پر مرکوز کرنی چاہیے جو کہ اچھی کارگردگی نہیں کھا رہے جن میں پی آئی اےاور پاور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں شامل ہیں۔

تاہم، اس خیال کو تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور اِس کے حوالے سے اہم سوالات اُٹھائے جارہے ہیں کہ حصص کی قیمتوں کا تعین کیا ہوگا اور بائ بیک کی شق کیا ہوگی؟ بائی بیک آپشن کب فعال کیا جا سکتا ہے اور پریمیم کتنا ہوگا؟ اس بارے میں بھی خدشات ہیں کہ ہم کس حد تک انتظامی کنٹرول سے دستبردار ہو جائیں گے۔

وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے پیش کردہ بیانات کی بنیاد پر، اگر حصص کی قیمت اس کی اصل مالیت کی عکاسی نہیں کرتی ہے تو یہ واقعی تشویش کی بات نہیں ہونی چاہیے کیونکہ جی 2 جی کے معاہدے کے مطابق پاکستان تقریباً کم سے کم پریمیم پر حصص واپس خرید سکے گا۔

مزید برآں، یہ واضح کیا گیا ہے کہ انتظامی کنٹرول برقرار رکھا جائے گا اور حکومت اکثریت یا ملکیت کے حصص فروخت نہیں کرے گی۔

سرکاری اداروں کے حصص دوست ممالک کو مالی امداد کے خلاف فروخت کرنا کوئی مستقل حل نہیں ہے اور یہ صرف ایڈہاک حل ہے لیکن پاکستان اس وقت جس قسم کے وقت سے گزر رہا ہے ، اُس قسم کی صورتحال دوبارہ پیدا ہوئی تو ہم مستقبل میں کیا کریں گے؟ کیا اثاثے بیچنا ہی واحد آپشن ہے؟ نہیں بلکہ حکومت اور تمام ریاستی اداروں کو کو طویل مدتی پالیسیاں بنانی چاہئیں تاکہ ملک مالی طور پر خود مختار ہوسکے۔

Related Posts