موسیقی کی حلت و حرمت

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موسیقی کے حوالے سے اہل علم میں ہمیشہ سے اختلاف رہا ہے۔ ایک گروہ اس کے علی الاطلاق حرام ہونے کا قائل رہا ہے جبکہ دوسرے کا کہنا ہے کہ موسیقی اپنی ذات میں بری نہیں بلکہ کچھ آلائشیں ہیں جو اس کے ساتھ جڑ جائیں تو پھر یہ یقیناً ممنوع ہوجاتی ہے۔

حرام کہنے والے حضرات بطور دلیل قرآن مجید کی آیت نمبر 6 پیش کرتے ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے: 

ترجمہ: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ تاکہ ان کے ذریعے لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں۔ ، اور اس کا مذاق اڑائیں۔ ان لوگوں کو وہ عذاب ہوگا جو ذلیل کرکے رکھ دے گا۔ (سورہ لقمان آیت نمبر 6)

وہ اس آیت سے استدلال تو کر لیتے ہیں لیکن یہ استدلال ٹک نہیں پاتا کیونکہ دعویٰ وہ یہ کرتے ہیں کہ مکہ کا مشرک تاجر نضر بن حارثہ موسیقی کے کنسرٹ منعقد کرتا تھا تاکہ لوگ رسول ﷺ کی طرف جانے کے بجائے ان کنسرٹس میں مشغول رہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں “حدیث” لفظ آیا ہے جو موسیقی کے معنیٰ میں کبھی بھی استعمال نہیں ہوا۔ گانے میں لے دے کر گلوکار کا گیت ہی ایسی چیز ہے جس کے لئے “حدیث” لفظ استعمال ہوسکتا ہے لیکن موسیقی کو حرام کہنے والے خود یہ کہتے اور لکھتے ہیں کہ اگر آلات موسیقی کے بغیر کوئی کلام گایا جائے تو وہ حلال ہے۔ گویا پورے آئیٹم میں جو چیز “حدیث” کہلانے کی گنجائش رکھتی ہے وہ تو ہوئی حلال اور ساز ہوگیا حرام، وہ بھی اس لفظ سے جو اس کے لئے استعمال ہی نہیں ہوتا۔

اگر بالفرض مان لیا جائے کہ یہ آیت گانے ہی کے حوالے سے نازل ہوئی ہے اور یہاں حدیث لفظ سے گانا ہی مراد ہے تو تب بھی یہ گانے کو مطلقاً حرام کہنے والوں سے زیادہ گانے کو کچھ آلائشوں کی شمولیت کی شرط کے ساتھ ناجائز کہنے والوں کی دلیل بنتی ہے کیونکہ “حدیث” لفظ مطلق نہیں آیا بلکہ “لھو” کی صفت کے ساتھ آیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہاں وہ گانا مراد ہے جو اپنے ساتھ کوئی برائی رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ آیت فی الواقع کس چیز کے بارے میں ہے اور یہاں “حدیث” سے کیا مراد ہے ؟ اس سوال کا جواب مفتی تقی عثمانی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ کیجئے۔

“قرآن کریم کی تاثیر ایسی تھی کہ جو لوگ ابھی ایمان نہیں لائے تھے وہ بھی چھپ چھپ کر قرآن کریم سنا کرتے تھے جس کے نتیجے میں بعض لوگ اسلام قبول بھی کر لیتے تھے۔ کافروں کے سردار اس صورتحال کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے تھے اس لئے چاہتے تھے کہ قرآن کریم کے مقابلے میں کوئی ایسی دلچسپ صورت پیدا کریں کہ لوگ قرآن کریم کو سننا بند کردیں۔ اسی کوشش میں مکہ مکرمہ کا ایک تاجر نضر بن حارث جو اپنی تجارت کے لئے غیر ملکوں کا سفر کیا کرتا تھا ، ایران سے وہاں کے بادشاہوں کے قصوں پر مشتمل کتابیں خرید لایا، اور بعض روایات میں ہے کہ وہ وہاں سے ایک گانے والی کنیز بھی خرید لایا، اور لوگوں سے کہا کہ محمد ﷺ تمہیں عاد و ثمود کے قصے سناتے ہیں، میں تمہیں ان سے زیادہ دلچسپ قصے اور گانے سناؤنگا، چناچہ لوگ اس کے گرد اکٹھے ہونے لگے۔ یہ آیت اس واقعے کی طرف اشارہ کر رہی ہے، نیز اس میں یہ اصول بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر وہ دل بھلانے کا مشغلہ جو انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل اور بے پروا کرے، ناجائز ہے۔ کھیل اور دل بھلانے کے صرف وہ مشغلے جائز ہیں جن میں کوئی فائدہ ہو، مثلاً جسمانی یا ذہنی ورزش، یاتھکن دور کرنا، اور جن کی وجہ سے نہ کسی کو تکلیف پہنچے ، اور نہ وہ انسان کو اپنے دینی فرائض سے غافل کرے۔ (توضیح القرآن۔ صفحہ نمبر 800)

یہ وہ حاشیہ ہے جو مفتی تقی عثمانی صاحب نے سورہ لقمان کی مذکورہ بالا آیت پر لکھا ہے۔ اور جس میں گلو کارہ کا ذکر وہ ان الفاظ میں کرکے گزرگئے ہیں کہ “بعض روایات میں آتا ہے” اگر آیت موسیقی سے ہی متعلق ہوتی تو وہ مرکزی ذکر موسیقی کا کرتے اور قصے کہانیوں کی کتب کے لئے لکھتے “اور بعض روایات میں آتا ہے کہ وہ قصے کہانیوں کی کتابیں بھی خرید لایا تھا” اور سب سے اہم بات یہ کہ لفظ “حدیث” کتابوں ہی سے جوڑ رکھتا ہے موسیقی سے نہیں۔

گانے کو مطلقاً حرام کہنے والے اہل علم کئی روایات بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں لیکن ان میں اکثر ضعیف روایات ہیں۔ ان کے پاس سب سے مضبوط روایت صحیح بخاری کی درج ذیل حدیث ہے۔

ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہوں گے، جو بدکاری، ریشم، شراب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے۔ ان میں سے کچھ متکبر قسم کے لوگ پہاڑوں کی چوٹیوں پر واقع اپنے بنگلوں میں رہائش رکھیں گے اور جب کوئی ضرورت مند آدمی ان کے پاس اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے جائے گا تو کل آنے کا کہہ کر ٹال دیں گے۔ اللہ تعالیٰ رات کے وقت ہی ان پر پہاڑ کو گرا دے گا اور ایسے ہی کچھ اور لوگوں کو قیامت تک کےلئے بندر و خنزیر بنا دے گا (بخاری ، کتاب الاشربہ، حدیث 5268)

اس روایت کے جواب میں اہل علم کا دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ امام بخاری نے یہ روایت “کتاب الاشربہ” میں رکھ کر خود طے کردیا ہے کہ یہ روایت درحقیقت کس چیز کے بارے میں ہے اور دوسری بات یہ کہ اس روایت میں چار الگ الگ چیزوں کا ذکر نہیں بلکہ یہاں ایک پیکج کا ذکر کیا جارہا ہے جسے “ڈانس پارٹی” کہتے ہیں، جس میں یہ چاروں چیزیں زوروں پر ہوتی ہیں اور جو مالدار قسم کے عیاش لوگ ہر زمانے میں کرتے رہے ہیں چنانچہ اس روایت میں بھی پوری صراحت کے ساتھ ان مالدار عیاشوں کا نہ صرف ذکر ہے بلکہ ان کی ان مشہور علامات بھی بیان کی گئی ہیں ۔ یہ علامات آج کے دور میں سب سے زیادہ واضح نظر آتی ہیں یعنی وہ لوگ جو پہاڑیوں پر سینکڑوں کنال کی کوٹھیاں بنا کر رہتے ہیں اور جب کوئی غریب ان کے پاس اپنی کسی ضرورت کے تحت جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں ۔

“معاف کرو بابا کل آنا !”

اہل علم کا یہ دوسرا گروہ اپنے اس مؤقف کے حق میں صحیح بخاری کی ہی دو روایتیں پیش کرتا ہے۔

پہلی روایت۔۔۔۔۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے تو میرے پاس دو بچیاں تھیں جو کہ جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ آ کر میرے بستر پر لیٹ گئے اور رخ مبارک دوسری جانب کر لیا۔ ابوبکر گھر میں آئے تو بولے: رسول اللہ کے پاس شیطانی گیت؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانب رخ انور پھیر کر ارشاد فرمایا: “انہیں چھوڑ دو۔” پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ وہ عید کا دن تھا۔ سوڈانی لوگ اپنے نیزوں اور ڈھال کی مدد سے کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ نے خود ہی فرمایا: “تم یہ دیکھنا چاہتی ہو؟” میں نے کہا، “جی ہاں۔” تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کے ساتھ تھا۔ آپ فرما رہے تھے: “بہت خوب، بنو ارفدہ۔” جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: “بس۔” پھر فرمایا: “جاؤ۔” (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 2750)

اس روایت پر گفتگو کرتے ہوئے دوسرے گروہ کے یہ اہل علم کہتے ہیں کہ کوئی بھی مطلق حرام چیز عید یا خوشی کے کسی اور موقع پر حلال نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ شراب، زنا، سود اور مرد کے لئے سونا اور ریشم حرام ہیں تو یہ ہر حال میں حرام ہیں۔ ان میں سے کوئی بھی چیز عید کے دن حلال نہیں ہو جاتی۔ البتہ بہت سی مباح چیزیں ہوتی ہیں جو عام لوگوں کے ہاں تو ہوتی ہیں لیکن پیغمبر کے ہاں نہیں ہوتیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسی پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا تھا “اللہ کے رسول کا گھر اور گانا ؟”

دوسری روایت۔۔۔۔۔ ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ یہاں میرے بستر پر ایسے بیٹھے جیسے تم لوگ بیٹھے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے والد اور چچا جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، ان کی تعریف کرنے لگیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، “ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔” آپ نے فرمایا: “اسے چھوڑو اور وہ گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔ (بخاری ، کتاب النکاح، حدیث 4852)

اہل علم کے دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ یہ دونوں روایات ایسی تقریبات کا حال بیان کر رہی ہیں جہاں رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں گیت گائے گئے لیکن چونکہ ان تقریبات میں بد کاری، ریشم اور شراب نہ تھی تو آپ ﷺ نے گیت سے منع نہیں فرمایا۔

حقیقت یہ ہے کہ موسیقی کا مسئلہ متفقہ نہیں بلکہ اختلافی ہے۔ اہل علم کا ایک گروہ اسے مطلقاً حرام کہتا ہے جبکہ دوسرا صرف اس موسیقی کو حرام کہتا ہے جس میں گائے گئے کلام میں کوئی بیہودگی ہو یا اس میں کوئی اور ایسی برائی ہو جس پر اسلام قدغن لگا چکا۔ اور عملاً صورتحال یہ ہے کہ یہ دوسرے گروہ والے ہی غالب اکثریت رکھتے ہیں۔ مگر پہلا گروہ چونکہ اس معاملے میں گالم گلوچ پر اتر آتا ہے تو اس دوسرے گروہ کے لوگ اس پھڈے سے بچنے کے لئے خود تو چھپ کر موسیقی سنتے ہیں لیکن کوئی عام آدمی پوچھ لے تو حرام کہہ کر پتلی گلی سے کٹ لیتے ہیں۔ مذہبی طبقے کا ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک گروہ اگر کسی چیز کی حرمت کا قائل ہوجائے تو اس حد تک انتہاپسندی پر اتر آتا ہے کہ گالم گلوچ سے بھی باز نہیں آتا۔ بعینہ یہی تماشا ہم اسلامی بینکاری والے مسئلے میں دیکھ چکے ہیں۔ چنانچہ ان میں سے جو گروہ حرمت کا قائل تھا وہ مفتی تقی عثمانی کے لئے بہتان اور گالیوں کے استعمال سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ میں نے اپنے کانوں سے انہیں یہ ننگی گالیاں دیتے سنا ہے۔ اور روز محشر اس کی گواہی بھی دے سکتا ہوں۔

Related Posts