وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت وفاقی حکومت نے سخت معاشی فیصلوں کے اعلان کا فیصلہ کیا ہے جس کی ایک واضح سیاسی قیمت ہے۔ آئی ایم ایف کو راضی کرنے اور قرض حاصل کرکے گرتی ہوئی معیشت سنبھالنے کیلئے حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 30 روپے تک بھاری بھرکم اضافے کا اعلان کیا جو ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔
وفاقی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مالی استحکام کیلئے پیٹرول کی قیمت بڑھانا ضروری تھا۔ کچھ ہی وقت کے بعد ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں احافے اور اسٹاک مارکیٹ میں مثبت رجحان جیسے اثرات سامنے آئے۔ دوسری جانب یوٹیلٹی اسٹورز پر آٹے کے نرخ بھی بڑھ گئے اور ٹرانسپورٹرز نے بھی کرایوں میں من مانا اضافہ کردیا۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین پیٹرول اور بجلی پر دی گئی سبسڈی کے خاتمے پر ہی مذاکرات میں ڈیڈ لاک تھا۔ بعد ازاں بجلی کے نرخوں میں بھی زبردست اضافہ وگا اور پھر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری کی جائے گی۔ پی ٹی آئی اور ن لیگی حکومت اس معاشی تباہی کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرا رہے ہیں جبکہ تمام تر مہنگائی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا ہوگا۔
وفاقی وزیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل نے تسلیم کیا ہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا تاہم اس کا دوسرا متبادل یہ ہوتا کہ شرحِ مبادلہ گرنے دی جائے۔ آخر کار حکومت نے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے متعلق سوچ سمجھ کر اہم فیصلہ کیا جس سے ملک کو قرض ملنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اس سے آئی ایم ایف کے علاوہ دیگر عالمی ادارے اور دوست ممالک بھی قرض دینے کیلئے راضی ہوجائیں گے۔
قبل ازیں وفاقی حکومت سیاسی مفادات کے پیشِ نظر پیٹرولیم مصنوعات پر کوئی واضح فیصلہ کرنے سے قاصر نظر آئی۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے سے پارٹی پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا دیر اتحادی جماعتیں بھی اس کی ذمہ داری قبول کریں گی؟ تاہم حکومت نے معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے غیر مقبول فیصلہ کرکے اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگر کوئی مثبت پیش رفت ہوئی تو حکومت اس کا سہرا اپنے سر سجانے کیلئے بھی تیار ہوگی۔
تشویشناک طور پر حکومت نے عجلت میں انتخابی اصلاحات بھی منظور کر لیں جو الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو ختم کردتی ہیں جبکہ سمندر پارپاکستانیوں سے ووٹنگ کا حق واپس لے لیا گیا۔ اب عوام کی نظریں اس بات پر ہیں کہ حکومت اقتدار جاری رکھنا چاہے گی یا نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے گا۔ خود ن لیگ میں بھی انتخابات کے انعقاد پر رائے منقسم نظر آتی ہے جبکہ عمران خان پہلے ہی حکومت کو اعلان کیلئے 6 روز کا الٹی میٹم دے چکے ہیں۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ حکومت کو اگلا بڑا قدم اٹھانے کیلئے تیار رہنا ہوگا۔