ملک میں سیاسی درجہ حرارت

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں ان دنوں سیاسی درجہ حرارت نقطہ عروج پر پہنچ چکا ہے، اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک طرف وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا شور ہے تو دوسری طرف دوبڑی اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان دراڑیں بھی واضح ہوتی جارہی ہیں۔

پی ڈی ایم جو پہلے ہی اپوزیشن کی تقسیم سے ٹوٹ چکی ہے، اس نے تحریک پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے 23مارچ کو اسلام آباد میں اپنے دھرنے کا منصوبہ موقوف کر دیا ہے۔ جے یو آئی (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہمیشہ کی طرح پر امید ہیں کہ ان کے پاس آئینی حکومت کی تبدیلی کے لیے مطلوبہ اعداد و شمار موجود ہیں۔ یہ امیدیں اس تاثر پر اور بڑھ گئی ہیں کہ حکومت کے اتحادی اور ناراض اراکین ان کا ساتھ دیں گے۔

اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے تحریک عدم اعتماد کا مسودہ تیار کر لیا ہے اورآنے والا ہفتہ اہم ہوگا کیونکہ ممکن ہے کہ تحریک کو پیش کیا جائے گا۔ صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے اور وزیر اعظم نے بھی اپوزیشن کے رابطوں کے بعد اتحادیوں سے ملاقاتیں شروع کردی ہیںاس سے پہلے کہ تحریک کامیاب ہو جائے اور حکومت کو بے دخل کر دیا جائے۔

تحریک کی کامیابی کے دعوئوں کے باوجودپیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان بداعتمادی دکھائی دے رہی ہے۔ مسلم لیگ ن قبل از وقت انتخابات چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ حکومت اپنی مدت پوری کرے۔ یہاں اس بات پر بھی ڈیڈ لاک نظر آرہا ہے کہ اگلے انتخابات سے قبل عبوری وزیر اعظم کون ہوگا۔

پی ٹی آئی حکومت کو پارٹی کے ارکان کی وفاداریاں تبدیل ہونے کی فکر لاحق ہوچکی ہے اور اگر حکومتی صفوں سے بغاوت ابھرتی ہے تو حکومت کیلئے ایک بڑا بحران پیدا ہوسکتا ہے اور حکومت کے خاتمے کے علاوہ حکمراں جماعت کو اتحادیوں کی بے وفائی کا بھی خدشہ ہے جس پر اتحادیوں کوحکومت کی حمایت کیلئے منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ملک میں جاری سیاسی گرما گرمی کے دوران تمام نظریں اپوزیشن کی جانب لگی ہیں کہ کب تحریک عدم اعتماد آئیگی اور کب اس پر پیشرفت ہوگی۔ پاکستان میں کسی منتخب وزیر اعظم کو آئینی طور پر ہٹانے کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس بات کے یقین کے باوجود کہ تحریک ناکام ہو جائے گی موجودہ صورتحال میں وزیر اعظم بھی پریشان دکھائی دیتے ہیں ، صورتحال بدستور کشیدہ ہے اور سیاسی ایوانوں میں تنائو بڑھتا جارہا ہے ۔

Related Posts