جنسی زیادتی کے واقعات

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

یہ ایک المیہ ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہے اور بااثر ملزمان یا تو ضمانت پر چلے جاتے ہیں یا پھر رہا ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں روزانہ کم از کم گیارہ کے قریب جنسی زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں لیکن شاید ہی کوئی ملزم اپنے منطقی انجام تک پہنچا ہو، ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے جہاں مجرم کو نتائج کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

ایک نوجوان جوڑے کو تشدد اور جنسی طور پر ہراساں کرنے کا واقعہ رونما ہوا، جس کی ویڈیو بھی بنائی گئی، ملزمان گرفتار ہوئے، مگر ظلم کا شکار لڑکی پر کیس واپس لینے کے لئے دباؤ ڈالا گیا اور بالآخر خاتون نے ملزم کو عدالت میں پہچاننے سے انکار کردیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالتی نظام کس طرح کمزور ہے۔

یہ واقعہ، جسے ایک ٹیسٹ کیس سمجھا جاتا تھا، متاثرہ کے اپنے بیان سے مکر جانے اور کیس کی پیروی کرنے سے انکار کے بعد کھٹائی میں جاتا نظر آرہا ہے، ریاست نے کیس کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ دیکھنا باقی ہے کہ ملزمان کو اس گھناؤنے جرم کی سزا دی جائے گی۔

ماہرین نے عصمت دری اور جنسی حملوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات خواتین اور لڑکیوں کے لیے خوف کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ ایسے واقعات میں اکثر پولیس اور تفتیشی ایجنسیوں کو لاپرواہی کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ معاملات کو مزید خراب کرنے کے لیے، قدیم عدالتی نظام مجرموں کی حمایت کرتا نظر آتا ہے جب کہ معاشرہ اکثر متاثرہ خاتونکو مورد الزام ٹھہراتا ہے اور مردوں کو فطری طور پر بری الزمہ قرار دے دیا جاتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سزا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔

موٹر وے پر زیادتی کا نشانہ بننے والی خاتون کے کیس نے پوری قوم کو چونکا دیا اور عالمی سرخیاں بن گئیں۔ ہم اس بات پر نظر ثانی کرنے پر مجبور تھے کہ کیا ملک خواتین کے لیے محفوظ ہے۔ تاہم کیس میں پیش رفت سے لاپرواہی برتی گئی اور وزیراعظم نے کیس پر پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔ سزا کی کم شرح اور عدالتوں میں طویل سماعتیں لوگوں کا عدالتی نظام پر سے اعتماد کھو دیتی ہیں۔

جنسی زیادتی کے واقعات دنیا بھر میں ہوتے ہیں لیکن مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی ضروری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ متاثرہ کو مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ انہیں کسی بھی خطرے سے بچائے تاکہ وہ مقدمہ واپس لینے پر مجبور نہ ہوں۔ بااثر ملزمان کو کڑی سزا ملنی چاہئے اور قانون کے تحت ان کے ساتھ مساوی سلوک کیا جانا چاہیے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ ایک مشکل کام لگتا ہے۔

Related Posts