جامعہ ہری پور جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ڈاکٹر اکرام الدین کو بھرتی کرنے کا انکشاف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ ہری پور جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ڈاکٹر اکرام الدین کو بھرتی کرنے کا انکشاف
جامعہ ہری پور جعلی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ڈاکٹر اکرام الدین کو بھرتی کرنے کا انکشاف

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسلام آباد: ہری پور یونیورسٹی میں جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر ڈاکٹر اکرام الدین کو گریڈ 20 میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بھرتی کرنے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔

جعل سازی سامنے آنے کے باوجود وائس چانسلر اور رجسٹرار شاہ مسعود خان انکوائری کمیٹی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہے ہیں، مذکورہ جعل سازی میں جامعہ پشاور کے شعبہ انوائرمنٹل سائنس کے سربراہ بھی ملوث ہیں۔

جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی کی جانب سے جامعہ میں ایک ایسے شخص کو انفارمیشن ٹیکنالوجی میں گریڈ 18 پر لیکچرر بھرتی کیا گیا، جو اب سلیکشن بورڈ کے ذریعے گریڈ 20 پر ترقی پا کر ایسوسی ایٹ پروفیسر بن گیا ہے، جس نے جعل سازی کرتے ہوتے پشاور یونیورسٹی میں گریڈ 17 کی ملازمت کے تجربہ کا جعلی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا۔

ڈاکٹر اکرام الدین کے جمع کرائے گئے تجرباتی سرٹیفکیٹ کے مطابق انہوں نے جامعہ پشاور کے انوائرمنٹل سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں ڈیٹا بیس ایڈمنسٹریٹر کے طور کام کیا ہے۔

جامعہ پشاور سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق ڈاکٹر اکرام نے کبھی بھی جامعہ پشاور سرکاری طور پر کام نہیں کیا ہے، البتہ وہ جامعہ پشاور کے انوائرمنٹل ڈیپارٹمنٹ میں  ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ایک پروجیکٹ میں  بطور ٹرینی ایک سال کام کر چکے ہیں۔

دوسرا تجربہ کا سرٹیفیکیٹ جس کمپنی کا ڈاکٹر اکرام الدین نے پیش کیا ہے، اس کے مطابق ڈاکٹر اکرام الدین نے سافٹِک آئی ٹی کمپنی کے ایڈوائزر کے طور پر کام کیا ہے وہ کمپنی سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق آئی ٹی کمپنی کے نام سے وجود ہی نہیں  رکھتی۔

وائس چانسلر کو لکھے گئے خط کے مطابق ڈاکٹر اکرام الدین نے یونیورسٹی انتظامیہ کے ساتھ دھوکہ کیا ہے اور ان کے ساتھ جعل سازی بھی کی ہے، جس کی وجہ سے ڈاکٹر اکرام الدین پر جرمانہ عائد کیا جائے اور سخت اسکروٹنی کی جائے، کیوں کہ جامعہ اور اس کے وائس چانسلر کی ساکھ کو بری طرح متاثر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

دستاویزات کے مطابق ڈاکٹر اکرام الدین نے سافٹک آئی ٹی کمپنی کے لیٹر پیڈ کے ذریعہ جو تجرباتی سرٹیفکیٹ جمع کرایا ہے، اسکے مطابق ڈاکٹر اکرام الدین نے 25 مارچ 2007 سے 24 فروری 2008 تک کمپنی میں ٹیم لیڈر کے طور پر کام کیا ہے۔

15 مئی 2009 کو جامعہ پشاور کے انوائرمنٹل سائنس کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر ایس شفیق الرحمن کے مطابق ڈاکٹر اکرام الدین ولد فضل مبعود جان یکم جون 2008 سے 15 مئی 2009 تک کام کرتے رہے ہیں، جن کو ماہانہ 10 ہزار روپے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے کنٹریکٹ کی وجہ سے دیا جاتا رہا ہے، جس کی معاہداتی مدت 31 مئی 2009 کو ختم ہو گئی تھی۔

جامعہ ہری پور کو اس جعلی سازی کی شکایت کی گئی جس کے بعد جامعہ ہری پور کی انتظامیہ نے انکوائری کمیٹی بنائی جس میں  جعل سازی کے تمام ثبوت سامنے آ گئے، لیکن ڈاکٹر شاہ مسعود رجسٹرار نے دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے کمیٹی کو صرف سرٹیفیکیٹس کی تصدیق کا ٹاسک دیا، حالانکہ درخواست گزار نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ملازمت کی درخواست میں ڈاکٹر اکرام الدین نے حلف اٹھایا ہے اور جو تجربہ کلیم کیا ہے وہ قابل قبول نہیں ہے۔

اس معاملہ کو سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن پشاور کے نوٹس میں بھی لایا گیا اور سیکرٹری کے استفسار پر بھی ڈاکٹر گیلانی اور شاہ مسعود خان نے کمال چابک دستی سے دائیں بائیں کر دیا اور سب اداروں کو مطلع کرنے کے باوجود وی جامعہ نے جعل ساز ایسوسی ایٹ پروفیسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔

یاد رہے کہ مذکورہ بے قاعدگی کے بارے میں چانسلر /گورنر خیبر پختونخوا سمیت وفاقی وزیر ڈاکٹر شفقت محمود اور وزیر اعظم عمران خان  کو بھی خط لکھ دیا گیا ہے، درخواست گزار نے ڈاکٹر اکرام الدین کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی صورت میں عدالت سے رجوع کرنے کاعندیہ دیا ہے۔

حیرت انگیز طور پر جامعہ ہری پور کے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی اور رجسٹرار ڈاکٹر شاہ مسعود خان کسی بھی صورت جعلی دستاویزات کے ذریعے بھرتی ہونے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر کو بھرتی نہیں کر سکتے ہیں اور نہ ہی اس سرکاری خزانے سے تنخواہ کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جامعہ ہری پور کے خلاف ضابطہ تعینات رجسٹرار کی جعل سازیوں کا انکشاف

معلوم رہے کہ خود ہری پور یونیورسٹی نے بالکل اسی طرح کے کیس میں 13 جولائی 2018 کو اسی جامعہ کے اسسٹنٹ پروفیسر خرم مہتاب کو جعلی تجرباتی سرٹیفکیٹ مہیا کرنے کی وجہ سے نوکری سے معطل کر دیا تھا۔ جب کہ ادھر جعل سازی کرنے والے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر اکرام الدین کو تاحال بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور تحقیقاتی کمیٹی کو غلط سمت میں لگا کر اپنی مرضی کی رپورٹ حاصل کر لی گئی ہے۔

Related Posts