ایک بارمسجد بن گئی تو اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا، علماء نے طارق روڈ پر مسجد ڈھانے کی مخالفت کردی

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

clerics opposed the demolition of the mosque on Tariq Road

کراچی : طارق روڈ کی جامع مسجد کو پارک کی زمین قراردیکر گرانے کے عدالتی حکم کے بعد ملک بھر میں مذہبی طبقے میں شدید بے چینی پائی جارہی ہے جس کے بعد ملک بھر سے مذہبی تنظیموں ، علمائے کرام سمیت دیگر حلقوں کی جانب سے مسجد کو گرانے کے بیانات کی شدید مذمت کی گئی ہے تاہم سندھ میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی جانب سے تاحال مسجد کو گرانے کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے ۔

جامع مسجد مدینہ طارق روڈ کے حوالے سے سابق جسٹس شریعہ کورٹ مفتی تقی عثمانی کا کہنا ہے کہ طارق روڈ کی جامع مسجد کو شہید کرکے پارک بنانے کا حکم قطعی طو رپر بلاجواز ہے،طار ق روڈ پر یہ مسجد تقریباً 25برس سے آباداور نمازیوں سے آبادچلی آرہی ہے ، ایسی مسجد کو سرسری طور پر اہل محلہ کو سنے بغیرصرف تکنیکی وجہ سے ڈھانے کاحکم ناقابل فہم ہے ، عدالت خود اس پر فوری طور پر اس پر ریویو کرے۔

ادھرجنرل سیکریٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان مولانا محمد حنیف جالندھری نے طارق روڈ کی مدینہ مسجد کو شہید کرنے کے معاملے کو تشویشناک اور بلاجواز قرار دیاہے۔ان کا کہنا ہے کہ مسجد کے معاملے میں پوری قوم میں اضطراب اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، اس معاملے کو فی الفور حل کیا جائے۔

مولانا جالندھری نے کہا کہ پلازوں،ہاؤسنگ سوسائٹیز اور اہل اقتدار کے محلات کو اگر ریگولرائز کیا جاسکتا ہے تو مسجد کو کیوں نہیں؟۔مولانا جالندھری نے سپریم کورٹ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل کی اور کہا کہ اسلام کے نام اور کلمہ طیبہ کے نعرے پر بننے والی مملکت خداداد میں مساجد کے بارے میں اس قسم کا ماحول بننا افسوس ناک ہے جس کا فی الفور خاتمہ کیا جائے۔

دوسری جانب جامعہ ندوۃ العلوم ختم نبوت میں رئیس دارالافتاء حمادیہ مفتی محمد طاہر مکی نے سپریم کورٹ کے قبضے کی جگہ تعمیر شدہ مساجد شہید کرنے کے فیصلے کو خلاف شرع قراردیتے ہوئے اپنے تفصیلی فتویٰ میں کہاہے کہ مساجدبنانااسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے جومسلمان عوام نے اپنے سر لے رکھی ہے جوحکومت پر مسلم امہ کا احسان ہے ۔

تفصیلی فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ قبضہ کی اراضیوں پر مساجد تعمیر کرنا اگرچہ جائزنہیں مگر تعمیر ہوجانے کے بعد سات زمین نیچے سے سات آسمان اوپر تک وہ مسجد کے حکم میں ہو جاتی ہے جسے شہید کرنا قطعاًحرام ہے، سپریم کورٹ اسلامی احکامات سے متصادم فیصلے پر نظر ثانی کرے،مفتی طاہر مکی نے فتویٰ میں کہا ہے کہ یہ مسئلہ تمام مسلک کے مفتیان کرام کوسپریم کورٹ میں پینل بٹھا کر حل کیاجائے ،مساجدشہید کرنے سے ملک میں حالات خراب ہوجائیں گے جسکااب ہمارا وطن عزیز متحمل نہیں۔

مزید پڑھیں:پولیس نے طارق روڈ پر مسجد اور تجاوزات خالی کرنے کیلئے 24 گھنٹے کی مہلت دیدی

حیرت انگیز طو رپر اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد کی جانب سے دکانداروں کو انکروچمنٹ ختم کرنے کے لئے دیئے گئے نوٹسز ہی غلط و مشکوک نکلے ہیں ، اسسٹنٹ کمشنر فیروز آباد کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں سی ایم اے 16k/2021 کا حوالہ دیا گیا ہے جب کہ cma16k/2021 سی پی نمبر 704k/2019میں درخواست گزار منیر احمد ہیں جو کہ سروس کے حوالے سے داخل کی گئی تھی ۔

درخواست گزار منیر احمد کی درخواست کا انکروچمنٹ سے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی تعلق نہیں ہے ، اسسٹٹ کمشنر کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں دوسرا حوالہ سی پی 9/2010 کا دیا گیا ہے اس کیس میں درخواست گزار سابق میئر کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ تھے جو انتقال کرچکے ہیں ۔

Related Posts