دنیا افغانستان کی مدد سے انکاری کیوں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 جب انسانیت کو اس حد تک گرادیاجائے کہ لوگ بھوک سے مرنا شروع ہوجائیں ، ایسی صورت میں اس کے اثرات ایک ملک تک محدود نہیں رہتے، افغانستان میں خوراک کے بحران کے اثرات پڑوسی ممالک پر بھی رونما ہونا شروع ہوچکے ہیں اور پاکستان پر بھی افغان صورتحال کے اثرات نمایاں نظر آرہے ہیں۔

افغانستان میں انسانی زندگیاں داؤ پر لگی ہیں اور پاکستان افغان طالبان حکومت کے قیام کے ساتھ ساتھ دنیا کو صورتحال کے حوالے سے متنبہ کرتا رہا ہے کہ دنیا کے منہ پھیرنے سے افغانستان میں انسانی المیہ جنم لے سکتا ہے اور پاکستان کے خدشات درست ثابت ہوتے جارہے ہیں۔

افغانستان میں اس وقت بھوک اور بدحالی بڑھتی جارہی ہے اور افغان عوام ملک چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے ہیں اور آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ تیزی پکڑتا جائے گا، حتی کہ 70 کی دہائی جیسے حالات پیدا ہوسکتے ہیں جس میں 30 لاکھ سے زائد مہاجرین پاکستان آبسے ۔مگر اب پاکستان میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یہ بوجھ برداشت کرسکے۔

طالبان جب انہیں کھانے کو نہیں دے سکتے تو انہیں جانے سے کیونکر روک سکتے ہیں۔وزارت خارجہ پر لازم ہےکہ اقوام متحدہ اور دنیا کے دیگر ممالک سے رجو ع کرکے باور کرادیں کہ پاکستان میں اتنی سکت باقی نہ رہی کہ وہ جنیوا کنونشن 1951 کی پاسداری کرسکے لہٰذا بین الاقوامی سطح پر پاکستان افغانستان سرحد پر اقوامِ متحدہ کی زیر نگرانی قبل از قت کیمپ قائم کردئیے جائیں اور جنیوا کنونشن کے تحت آنے والے مہاجرین کو دیگر ممالک میں بھی بسایا جائے۔

امریکا اور دیگر عالمی قوتوں نے افغانستان سے انخلاء سے قبل دوحہ میں ہونیوالے معاہدے میں  مستقبل میں افغانستان کی مدد جاری رکھنے کا عندیہ دیاتھا لیکن گزشتہ 3ماہ سے پاکستان کے باربار انتباہ اور طالبان کی گزارشات کے باوجود افغانستان کے منجمد اثاثے بحال نہیں کئے جارہے اور صورتحال بتدریج بد سے بدترہوتی جارہی ہے۔

انخلاء کے بعد امریکا افغانستان کے معاملات کو جس انداز سے ڈیل کررہا ہے، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ امریکا معاملات کو بدترین سطح پر لیجانے کی طرف بڑھ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن فنڈز ہونے کے باوجود امریکی رکاوٹوں کی وجہ سے افغانستان کی مدد کرنے سے قاصر ہے اور اسی طرح ورلڈ بینک نے امریکا سے اشارہ ملنے پر افغانستان کی مدد سے معذرت کرلی ہے۔

عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق افغانستان میں بھوک سے اموات کی ابتدا ہو چکی ہےاور اقوام متحدہ کی اپیل پر اکٹھا کیا ہوا پیسہ افغان حکومت کو نہیں بھجوایا جاسکا۔ جس کی وجہ سے صورتحال گمبھیر ہوتی جارہی ہے اور ایسی صورتحال میں یہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ کیا امریکا دانستہ افغانستان میں بھوک اور بدحالی کو بڑھاوا دیکر سول وار کی راہ ہموار کررہا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ چین کے افغانستان میں اثر و رسوخ کو روکنے اورسی پیک میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے امریکا پس پردہ تمام ہتھکنڈے استعمال کررہا ہے۔بھارت چونکہ افغانستان میں بے پناہ رقم خرچ کرچکا ہے اور طالبان حکومت کے قیام کے بعد اس کو تاریخی ہزیمت اٹھانا پڑی۔

بھارت کو پاکستان اور چین کے بغیر افغانستان کے حوالے سے بھارت میں ہونیوالی کانفرنس کے وہ نتائج نہیں مل سکے جو خطے کی کاوشوں سے مل سکتے تھے۔

پاکستان میں ٹرائیکا پلس ممالک کا اجلاس بلا کرافغانستان کے مسائل کو مزید اجاگر کیا اور ساتھ ہی افغانستان کے وزیر خارجہ کی ملاقات امریکی، روسی اور چینی مندوب سے بھی کرائی جو کہ افغانستان کیلئے امداد کی راہ ہموار کرنے میں ایک اہم پیشرفت ہے۔

پاکستان کے مخدوش معاشی حالات میں افغانستان اورخطے کے بدلتے ہوئے حالات بھاری پڑتے جارہے ہیں جو کہ دیگر عوامل اور پاکستانی حکومت کے کرتوتوں کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی اور مزید مہنگائی کا سبب بنتے جارہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اندرونی اور بیرونی معامات کا بدلتے ہوئے منظر نامے کے حوالے سے احاطہ کرے اور اپنی پالیسیوں کو فی الفور درست سمت میں لے جانے کیلئے کاوشیں تیز کردے۔ بصورتِ دیگر حالات اس ڈگر پر پہنچ سکتے ہیں جنہیں قابو کرنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ثابت ہوسکتا ہے۔

Related Posts