مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت سے متعلق آرٹیکل 370 اے ختم کیے جانے کے بعد بھارت کی طرف سے نافذ کردہ کا آج 60 واں دن ہے اور وادی میں مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے جبکہ موبائل فون، ٹی وی اور انٹرنیٹ سمیت تمام ذرائع ابلاغ بدستور معطل ہیں۔
کشمیر میں تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز مسلسل بند اور مظلوم کشمیریوں کی نقل و حرکت پر پابندی عائد ہے۔کشمیری حریت رہنماؤں کے ساتھ ساتھ بھارت نواز کشمیری سیاستدان بھی زیادہ تر قید میں اور گرفتار ہیں یا پھر انہیں نظر بند کردیا گیا ہے جبکہ قابض بھارتی فوج کی طرف سے وادی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی مسلسل بند ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یہ میرا مواخذہ نہیں، عوام کے دئیے گئے اختیارات پر ڈاکہ ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسلسل 56 روز سے جاری کرفیو کے باعث کشمیری عوام ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ بچوں کے لیے دودھ اور عوام کے لیے زندگی بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ انتہائی قلیل ہیں۔
انتظامیہ کے اصرار کے باوجود والدین نے بچوں کو کرفیو کے نفاذ کے دوران اسکول بھیجنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ کشمیری والدین کو بھارتی فوج سے اپنے بچوں کی جان کی حفاظت کی کوئی امید نہیں ہے۔ مظلوم کشمیری عوام کرفیو کے باعث کھانے اور دواؤں سے محروم ہیں جبکہ سری نگر ہسپتال میں طبی ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر روز کم از کم 6 مریض جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے کہ اس سے قبل بھارتی عدالت عظمیٰ کے سابق جج مرکھنڈے کاٹجو نے کہا کہ بھارت کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتا ہے جسے اگلنا اور نگلنا دونوں ہی ناممکن ہوں گے۔
برطانوی انگلش میگزین دی ویک میں اپنے ایک آرٹیکل میں بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکھنڈے کاٹجو نے کہا کہ مودی حکومت جموں و کشمیر میں متعصبانہ پالیسیاں اپنانے میں ملوث ہے جس کے باعث بھارت کے لیے کشمیر ویتنام ثابت ہوسکتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں لاوا پک رہا ہے جو اس طرح پھٹے گا کہ فتح کا جشن منانے والوں کے لیے ڈراؤنا خواب ثابت ہوگا۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر بھارت کے لیے گلے کی ہڈی بن جائے گا۔ سابق جج بھارتی سپریم کورٹ