معاہدۂ پیرس کی 5ویں سالگرہ، ماحولیاتی ایمرجنسی اور وزیرِ اعظم کا خطاب

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معاہدۂ پیرس کی 5ویں سالگرہ، ماحولیاتی ایمرجنسی اور وزیرِ اعظم کا خطاب
معاہدۂ پیرس کی 5ویں سالگرہ، ماحولیاتی ایمرجنسی اور وزیرِ اعظم کا خطاب

آج دنیا بھر میں تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے موسم، گرین ہاؤس اثرات اور ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کیلئے ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ کی باتیں ہو رہی ہیں جبکہ گزشتہ روز معاہدۂ پیرس کی 5ویں سالگرہ بھی منائی گئی۔

معاہدۂ پیرس کیا ہے؟ ماحولیاتی ایمرجنسی کے نفاذ سے دنیا کون سے فوائد حاصل کرسکے گی اور گزشتہ روز وزیرِ اعظم عمران خان نے موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی ورچؤل سمٹ سے خطاب کے دوران ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے کیا وعدے کیے؟ آئیے آج ان تمام نکات پر غور کرتے ہیں۔

معاہدۂ پیرس کیا ہے؟

فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آج سے 5 سال قبل یعنی 12 دسمبر 2015ء کو ایک ماحولیاتی کانفرنس ہوئی جس کے دوران دنیا بھر کے درجۂ حرارت میں اضافہ 2 ڈگری تک محدود کرنے پر اتفاق کیا گیا اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو روکنے کیلئے اہم نکات پر دستخط ہوئے جسے معاہدۂ پیرس کا نام دیا جاتا ہے۔

قبل ازیں پیرس میں ماحولیاتی تبدیلیوں، گرین ہاؤس افیکٹ اور ماحولیاتی آلودگی میں کمی کے معاملات پر 2 ہفتے تک گفت و شنید جاری رہی اور پھر بین الاقوامی درجۂ حرارت کو محدود کرنے کا معاہدہ طے پایا۔

تمام صنعتی و ترقی یافتہ ممالک معاہدۂ پیرس کے پابند ہیں کیونکہ تمام ممالک نے کاربن کے اخراج میں کمی کا عہد کیا۔ اتفاق اس بات پر بھی ہوا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات کو بتدریج کم کیا جائے۔

تمام ممالک نے اتفاق کیا کہ عالمی درجۂ حرارت میں اضافہ 2 ڈگری سے کم ہوگا اور کوشش کرکے اسے ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ تک لایا جائے گا اور ہر 5سال بعد تمام ممالک اکٹھے ہو کر معاہدے کے تحت پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔

طے یہ بھی پایا تھا کہ رواں برس سے ترقی پذیر ممالک ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے سالانہ 1 کھرب ڈالر کی مالی مدد حاصل کرسکیں گے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی ہوگا۔

معادے میں یہ بھی تحریر تھا کہ معاہدہ صرف اسی وقت عمل پذیر ہوسکے گا اگر دنیا کے 55 ممالک جو کم از کم 55 فیصد گرین ہاؤس گیسز پیدا کرتے ہیں، اس پر دستخط کردیں جن میں چین اور امریکا بھی شامل ہیں جو تنِ تنہا دنیا بھر کی 40 فیصد آلودگی کے ذمہ دار ہیں۔ معاہدے پر ابتداً یورپین یونین ممالک سمیت 174 دیگر ریاستوں نے دستخط کیے۔

دنیا کی سب سے پہلی ماحولیاتی دستاویز کے اغراض و مقاصد

درجنوں ممالک نے معاہدۂ پیرس پر دستخط کیے، اس حوالے سے ہفتوں گفتگو کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ پیرس معاہدے کا سب سے بڑا مقصد دنیا کے درجۂ حرارت میں اضافے کی شرح کو کم کرکے  کم از کم 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم یا پھر 1 اعشاریہ 5 ڈگری سینٹی گریڈ تک لانا تھا۔

وجہ اِس مقصد کو سب سے بڑا مقصد بنانے کی یہ تھی کہ اگر دنیا بھر کے درجۂ حرارت میں اگر سالانہ 2 ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد اضافہ جاری رہا تو جلد ہی دنیا بھر میں گلیشئیرز پگھلنے سے لے کر ساحلی شہروں کے ڈوبنے اور جغرافیوں کی تبدیلی سمیت بڑے برے پریشان کن حالات پیدا ہوں گے جو عالمی برادری کے قابو سے باہر ہوجائیں گے۔

دوسرا بڑا مقصد یہ تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے بد ترین نقصانات کو کم سے کم کیا جائے اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم سے کم کیا جائے اور ایسا اِس طرح کیا جائے کہ خوراک کی پیداوار بھی متاثر نہ ہو۔

تیسرا مقصد یہ تھا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ترقی پذیر ممالک کو مالیاتی تعاون فراہم کیا جائے تاکہ وہ بھی بہتر ایندھن استعمال کرکے ماحولیاتی تبدیلیوں، گرین ہاؤس افیکٹ اور آلودگی سے بچ سکیں اور دنیا کو بچا سکیں۔

ما بعد مقاصد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو 20 فیصد تک کم کرنا، قابلِ تجدید توانائی کے مارکیٹ شیئر کو 20 فیصد تک لانا اور توانائی کی استعداد میں بھی 20 فیصد اضافے کا ہدف شامل تھا۔ واضح رہے کہ معاہدۂ پیرس دنیا کی سب سے پہلی اہم ماحولیاتی دستاویز مانی جاتی ہے۔ 

پانچویں سالگرہ اور وزیرِ اعظم کا خطاب 

وزیرِ اعظم عمران خان نے پیرس ایگریمنٹ کی پانچویں سالگرہ کے موقعے پر ماحولیاتی سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم کوئلے سے مزید توانائی پیدا نہیں کریں گے تاکہ گرین ہاؤس افیکٹ سے بچا جاسکے۔

سمٹ سے خطاب کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ پاکستان ملک بھر کی مختلف فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس سمیت ہر جگہ کوئلے سے چلنے والے پلانٹس ہائیڈرو پاور پلانٹس لگانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

خطاب کے دوران وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم 2030ء تک 60 فیصد مجموعی توانائی کلین انرجی پر منتقل کرنے کا ہدف مقرر کرچکے ہیں۔ پاکستان دنیا بھر کی ماحولیاتی آلودگی کا 1 فیصد سے بھی کم پیدا کرتا ہے تاہم ہم آلودگی سے متاثرہ ممالک میں 5واں بڑا ملک مانے جاتے ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ سن 2030ء تک پاکستان بھر کی 30 فیصد گاڑیاں برقی ہوں گی تاکہ وہ دھواں پیدا نہ کریں۔ ہم ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کے خلاف ہر ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اپنی دنیا بھر میں سراہی گئی کاوشوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ آئندہ 3 برس میں پاکستان میں بلین ٹری سونامی مہم کے تحت 10 ارب پودے لگائے جائیں گے اور ہم قومی پارکس 45 کردیں گے جو آج صرف 30 ہیں۔ 

ماحول دوست اور ماحول دشمن ایندھن میں فرق 

سائنس کے ابتدائی درجات میں ہی طلباء کو سمجھایا جاتا ہے کہ گرین ہاؤس افیکٹ کیا ہے؟ دراصل یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے دنیا بھر کو ایک شیشے کے پنجرے میں قید کردیا جائے۔

شیشہ کیا کرتا ہے؟ وہ دھوپ سے حاصل ہونے والی گرمی کو اندر تو آنے دیتا ہے لیکن یہ گرمی دوبارہ واپس باہر نہیں جاتی اور اسی کو ہم گرین ہاؤس افیکٹ کہتے ہیں۔ دنیا بھر میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں اور صنعتی یونٹس سے نکلنے والا دھواں ہماری پوری دنیا کو ایک شیشے کے بڑے سے پنجرے میں تبدیل کر رہا ہے۔

یہ پنجرہ دنیا بھر میں گرم ترین موسم کا باعث بنتا ہے جبکہ انسان ماحول دشمن کی جگہ ماحول دوست ایندھن بھی استعمال کرسکتا ہے، مثال کے طور پر کوئلے کی جگہ بجلی استعمال کی جاسکتی ہے جو دھواں پیدا نہ کرے۔ 

گرین ہاؤس گیسز کے حیرت انگیز حقائق  اور بد ترین نقصانات

کاربن ڈائی آکسائیڈ، نائٹرس آکسائیڈ اور میتھین 3 ایسی گیسز ہیں جنہیں گرین ہاؤس گیسز کہا جاتا ہے۔ یہ گیسیں قدرتی طور پر بھی پیدا ہوتی ہیں لیکن انسان اِن گیسز کی اضافی مقدار منوں ٹنوں کے حساب سے پیدا کر رہا ہے۔

یہ گیسیں زمین کا درجۂ حرارت نقطۂ انجماد سے بڑھا کر گلیشیئرز کے پگھلاؤ سمیت بڑی بڑی موسمی تبدیلیوں کا باعث بنتی ہیں، لیکن اگر یہ گرین ہاؤس گیسز نہ ہوں تو زمین کا درجۂ حرارت مائنس 18 ڈگری سینٹی گریڈ تک چلا جائے گا، اِس لیے ضروری مقدار میں اِن گیسز کا زمین پر رہنا بھی ضروری ہے۔

گیسولین، کوئلہ اور قدرتی تیل سمیت فوسل ایندھن کے زائد استعمال کے باعث گرین گیسز مسلسل پیدا ہو کر زمین کو گرم کرنے کا عمل جاری رکھتی ہیں۔ سن 1700ء کے بعد سے اب تک انسانوں نے ایسے ماحول دشمن ایندھن کا استعمال زیادہ سے زیادہ کیا۔

آج اگر ہم عام ایندھن سے چلنے والی گاڑیوں کی بجائے اسمارٹ برقی کاریں استعمال کریں تو نہ صرف گیس اور پٹرول بچیں گے بلکہ گلوبل وارمنگ بھی کم ہوگی۔سائنس کے مطابق آج زمین کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گزشتہ 8 لاکھ برسوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔

بلاشبہ امریکا دنیا کی آبادی کا صرف 4 فیصد حصہ ہے تاہم یہی وہ ملک ہے جہاں سے دنیا کی 25 فیصد کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہوتی ہے یعنی دنیا کا سب سے ترقی یافتہ ملک سب سے زیادہ گرین ہاؤس افیکٹ کا باعث بنتا ہے۔

سن 1870ء سے لے کر اب تک گرین ہاؤس گیسز کے باعث سمندر کی سطح میں 8 انچ کا اضافہ ہوا ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے اور متعدد ساحلی شہروں کا وجود تک مٹا کر رکھ دے گی۔

گلیشیئرز سکڑ گئے، دریاؤں اور جھیلوں پر موجود برف وقت سے پہلے پگھلنے لگی ہے، پودوں اور جانوروں کی انواع و اقسام میں کمی ہو رہی ہے اور درخت جلدی پھول پیدا کرنے لگے ہیں۔

یہی نہیں، بلکہ گلوبل وارمنگ سے پیدا ہونے والی گرمی قدرتی گرمی کے مقابلے میں زیادہ نقصان دہ ہے۔ جن لوگوں کو شوگر ہو اور وہ نوجوان یا بوڑھے ہوں، انہیں گلوبل وارمنگ موت کے قریب لے جاتی ہے۔

گزشتہ 10 برسوں کے دوران پاکستان میں سڑکوں اور ہائی ویز کی چوڑائی بڑھانے کیلئے 10 کروڑ درخت بے دردی سے کاٹ دئیے گئے جبکہ اسی عرصے میں صرف 1 لاکھ درخت لگائے گئے جس  سے پاکستان میں فضائی آلودگی میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ 

ماحولیاتی ایمرجنسی کا نفاذ

ابھی تک پاکستان یا بھارت سمیت کسی بھی ترقی پذیر ملک نے یہ قدم نہیں اٹھایا تاہم نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیسنڈا آرڈن نے ماحولیاتی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے سرکاری سیکٹر سے 2025ء تک کاربن کے اخراج کو مکمل طور پر ختم کرنے کی قرارداد منظور کی۔

یہ قرارداد جیسنڈا آرڈن نے 2 دسمبر 2020ء کو منظور کرائی۔ پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے جیسنڈا آرڈن کا کہنا تھا کہ ہم بین الحکومتی پینل کی رپورٹ کے مطابق یہ اعلان کر رہے ہیں جس کے تحت 2023ء تک کاربن کے اخراج میں 45 فیصد کمی لائی جائے گی، کاش ایسا ہی اعلان پاکستان میں بھی کیا جائے۔ 

Related Posts