غزہ میں نسل کشی کے 460 دن!

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

غزہ کی محصور و محدود پٹی میں جاری نسل کشی کی صہیونی جنگ کے 460 دن مکمل ہوگئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اس دوران 46 ہزار شہری شہید ہو چکے ہیں۔ یہ تعداد یومیہ 100 شہداء کے برابر ہے۔ لیکن جمعہ کو ایک نئی تحقیقاتی رپورٹ جاری ہوئی، جس کے مطابق وزارت صحت کے یہ اعداد وشمار شہداء کی اصل تعداد کی نمائندگی نہیں کرتے، درحقیقت شہداء کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس تحقیق کے مطابق اسرائیل جنگ کے شروع سے اب تک یومیہ 170 فلسطینیوں کو شہید کر رہا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق جمعہ کے روز فلسطینی شہداء کے حوالے سے ایک نیا تحقیقی مطالعہ طبی جریدے “لانسیٹ” میں شائع ہوا، اس کے مطابق غزہ کے علاقے میں جاری تباہ کن جنگ کے پہلے نو مہینوں کے دوران شہداء کی تعداد وزارت صحت کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مقابلے میں تقریباً 40 فیصد زیادہ تھی۔ پچھلے سال 30 جون تک، غزہ کی وزارت صحت نے اس جنگ کے شہداء کی تعداد 37,877 بتائی تھی، لیکن نئے مطالعے، جو وزارت کی معلومات، آن لائن سروے اور سوشل میڈیا پر جاری کردہ تعزیتی اعلانات پر مبنی تھا، نے اندازہ لگایا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 55,298 سے 78,525 شہداء کے درمیان تھی۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو آج 15 ماہ بعد یقینا شہداء کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے کہیں تجاوز کر چکی ہے۔ اگر 40 فیصد زیادہ شمار کیا جائے تو اب تک یہ تعداد ایک لاکھ 95 ہزار بنتی ہے۔ تحقیقاتی مطالعے کے مطابق ابتدائی 9 ماہ میں شہداء کی سب سے بہتر تخمینی تعداد 64,260 ہے، جو وزارت صحت کے اعداد و شمار سے 41 فیصد زیادہ ہے۔ مطالعے میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ یہ تعداد جنگ سے پہلے غزہ کی کل آبادی کا 2.9 فیصد یا تقریباً ہر 35 شہریوں میں سے ایک کے برابر ہے۔

قدرت کا انتقام، غزہ کو مکمل تباہ کرنے کا مطالبہ کرنے والے ہالی ووڈ ادا کار کا گھر جل کر خاکستر

برطانیہ کی قیادت میں تحقیقاتی ٹیم کے اندازوں کے مطابق، 59 فیصد متاثرین خواتین، بچوں، اور بزرگ افراد پر مشتمل ہیں۔ یہ اعداد و شمار صرف جنگ کے نتیجے میں براہ راست شہید ہونے والے فلسطینیوں تک محدود ہیں اور ان میں دیگر عوامل، جیسے صحت کی سہولیات کی کمی یا خوراک کی قلت سے ہونے والی اموات شامل نہیں ہیں اور نہ ہی ان ہزاروں لاپتہ افراد کو شامل کیا گیا ہے جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ملبے کے نیچے دفن ہیں۔ تحقیقاتی مطالعے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فلسطینی وزارت صحت کی الیکٹرانک ریکارڈ رکھنے کی صلاحیت ماضی میں قابلِ اعتماد ثابت ہوئی ہے، لیکن اسرائیلی فوجی مہم کے دوران اسپتالوں اور دیگر صحت کی سہولیات پر چھاپے اور ڈیجیٹل مواصلات کے نظام کو معطل کیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں یہ صلاحیت بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔
جمعرات کے روز غزہ کی وزارت صحت نے اعلان کیا تھا کہ 7 اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملے کے نتیجے میں شہداء کی تعداد 46,006 تک پہنچ گئی ہے، جبکہ زخمیوں کی تعداد 109,378 ہے۔ لیکن حالیہ تحقیق کی روشنی میں یہ تعداد میں بہت کم ہے۔ وزارت صحت صرف اسپتال میں لائی جانے والی لاشوں کے اندراج پر انحصار کرتے ہوئے شہداء کے اعداد و شمار جمع کرتی ہے۔ بلکہ نئی تحقیق میں محققین نے ایک مختلف شماریاتی طریقہ استعمال کیا، جسے “کیپچر اینڈ ری کیپچر” تجزیہ کہا جاتا ہے، جو پہلے دنیا کے دیگر تنازعات میں ہلاک شدگان کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ تجزیے کے لیے تین مختلف فہرستوں سے ڈیٹا لیا گیا۔ پہلی فہرست غزہ کی وزارت صحت کی فراہم کردہ تھی، جو اسپتالوں یا مردہ خانوں میں شناخت شدہ لاشوں پر مبنی تھی۔ دوسری فہرست ایک آن لائن سروے پر مبنی تھی، جو وزارت صحت نے شروع کیا تھا اور جس میں فلسطینی اپنے قریبی رشتہ داروں کی موت کی اطلاع دیتے ہیں۔ تیسری فہرست سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے ایکس (پہلے ٹوئٹر)، انسٹاگرام، فیس بک اور واٹس ایپ پر شائع ہونے والے تعزیتی اعلانات پر مبنی تھی، جہاں ممکن ہوا تو مرنے والوں کی شناخت کی تصدیق کی گئی۔

سوشل میڈیا کمپنیوں نے پاکستانی پبلشرز کے اکاؤنٹس کیوں ختم کردیے؟

مطالعے کی مرکزی محقق زینہ جمال الدین، جو لندن اسکول آف ہائجین اینڈ ٹروپیکل میڈیسن میں وبائی امراض کی ماہر ہیں، نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا: “ہم نے تجزیئے میں صرف اُن افراد کو شامل رکھا، جن کی موت کی تصدیق ان کے رشتہ داروں، مردہ خانوں یا اسپتالوں نے کی تھی۔” محققین نے تینوں فہرستوں کا بغور جائزہ لیا تاکہ کوئی بھی دہرایا ہوا ڈیٹا تلاش کیا جا سکے۔ زینہ نے مزید کہا: “اس کے بعد، ہم نے تینوں فہرستوں کو مرچ کرکے دیکھا اور اس ملانے کی بنیاد پر، آپ مرنے والے افراد کی مجموعی تعداد کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔”
پیٹرک بول، جو امریکہ میں قائم “ہیومن رائٹس ڈیٹا اینالیسس گروپ” میں شماریات دان ہیں، وہ اگرچہ اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، مگر انہوں نے تنازعات میں مرنے والوں کی تعداد کا اندازہ لگانے کے لیے “کیپچر اور ری کیپچر” طریقہ کار کا استعمال کیا ہے، جیسا کہ گوئٹے مالا، کوسووو، پیرو اور کولمبیا میں۔ بول نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ یہ طریقہ کار صدیوں سے آزمایا جا رہا ہے اور محققین نے غزہ کے حوالے سے ایک “بہترین اندازہ” پیش کیا ہے۔ اسی طرح، برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی میں اپلائیڈ شماریات کے پروفیسر کیون میکونوے نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ نامکمل ڈیٹا کی بنیاد پر اندازے لگانے میں “یقیناً کافی حد تک غیر یقینی” موجود ہوتی ہے۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ یہ “انتہائی متاثر کن” بات ہے کہ محققین نے اپنے اندازوں کی تصدیق کے لیے شماریاتی تجزیئے کے تین دیگر طریقے استعمال کیے۔ انہوں نے مزید کہا: “مجموعی طور پر، مجھے یہ اندازے مناسب حد تک قائل کرنے والے لگتے ہیں۔”
اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی وجوہات موجود ہیں جو اس مفروضے کو مضبوط کرتی ہیں کہ جنگ کے دوران ہلاکتوں کی اعلان کردہ تعداد حقیقت سے بہت کم ہے، کیونکہ تحقیق میں لاپتہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی امور کی ہم آہنگی (اوچا) کے مطابق، خیال کیا جاتا ہے کہ تقریباً 10,000 لاپتہ غزہ کے شہری ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ بھی محض ایک محدود تخمینہ ہے۔ مزید برآں، جنگ بالواسطہ طور پر بھی جانوں کے نقصان کا سبب بن سکتی ہے، جن میں صحت کی سہولیات، خوراک، پانی، نکاسیٔ آب کی کمی، یا بیماریوں کا پھیلاؤ شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل غزہ کے علاقے میں اکتوبر 2023 سے پوری قوت کے ساتھ موجود ہیں۔

مذاکرات معطل؟ عمران خان کی اپنے کیسز عالمی سطح پر لے جانے کی دھمکی

جولائی میں طبی جریدے “لانسیٹ” میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں، محققین کے ایک اور گروپ نے دیگر تنازعات میں ریکارڈ کی گئی بالواسطہ اموات کی شرح کو بنیاد بنا کر اشارہ دیا کہ غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد بالآخر تقریباً 1,86,000 تک پہنچ سکتی ہے۔ نئے مطالعے نے ان اندازوں کو “غیر موزوں” قرار دیا، کیونکہ غزہ میں جنگ سے پہلے بیماریوں کے بوجھ میں واضح فرق ہے، جو برونڈی اور مشرقی تیمور جیسے ممالک میں تنازعات سے مختلف ہے۔ یعنی باوجود طبی ماہرین کی پیش گوئیوں کے، قدرت نے اہل غزہ کو کسی بڑی وبائی مرض سے اب تک محفوظ رکھا ہے۔
زینہ جمال الدین نے توقع ظاہر کی ہے کہ اس نئے تحقیقاتی مطالعے پر “مختلف فریقوں سے تنقید” آئے گی اور انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد پر ہونے والی بحث کو “جنون” قرار دیتے ہوئے مذمت کی۔ انہوں نے کہا: “ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ یہاں بہت زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔”
نسل کشی کی جنگ کے 460 دن پورے ہونے پر فلسطینی مرکز برائے اطلاعات (میڈیا سینٹر) نے جو اعداد وشمار جاری کیے ہیں، وہ بھی نہایت ہوشربا ہیں۔ حکومتی دفتر کی جانب سے جاری کردہ ڈیٹا میں بتایا گیا ہے کہ ان 460 دنوں میں حسب ذیل اعداد وشمار ریکارڈ کیے جاچکے ہیں:
قابض فوج کی جانب سے مجموعی طور پر 10,015 مرتبہ قتل عام کیا گیا۔ جن میں7,182 کو اجتماعی طور پر نشانہ بنایا گیا۔ 1,600 فلسطینی خاندانوں کو قابض افواج نے مکمل طور پر ختم کر دیا۔ والدین اور تمام افراد کو قتل کر کے شہری رجسٹر سے ان کا ریکارڈ ہی مٹا دیا۔ ان خاندانوں کے افراد کی تعداد 5,612 شہداء پر مبنی ہے۔ 3,471 فلسطینی خاندانوں کو قابض افواج نے تباہ کر دیا اور ان میں سے صرف ایک فرد زندہ بچا، ان خاندانوں کے افراد کی تعداد 9,000 سے زائد شہداء پر مشتمل ہے۔ مجموعی طور پر 57,136 فلسطینی شہید اور لاپتہ ہیں۔11,200 لاپتہ افراد اسپتالوں تک نہیں پہنچے۔45,936 شہداء کی لاشیں اسپتالوں تک پہنچائی گئیں۔ جن میں سے17,841 شہداء بچے ہیں۔ 240 شیر خوار بچے جو پیدا ہوتے ہی اجتماعی نسل کشی کی جنگ میں شہید ہو گئے۔ 858 بچوں کی عمریں ایک سال سے کم تھیں اور وہ جنگ کے دوران شہید ہو گئے۔ 44 افراد غذائی قلت، خوراک کی کمی اور قحط کے باعث شہید ہوئے۔ 8 افراد جن میں 7 بچے شامل ہیں، جو شدید سردی کے باعث پناہ گزینوں کے خیموں میں شہید ہو گئے۔ 12,298 خواتین جو اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہوئیں۔ 1,068 طبی عملے کے افراد کو اسرائیلی قابض افواج نے قتل کیا۔ 94 سول ڈیفنس کے اہلکار اسرائیلی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ 202 صحافی صہیونی درندگی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ 736 امدادی سرگرمیوں کی حفاظت پر مامور کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ 149 مرتبہ اسرائیلی قابض افواج نے امدادی سرگرمیوں کی حفاظت پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔7 اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، جو قابض افواج نے اسپتالوں کے اندر قائم کی تھیں۔ ان قبروں سے 520 شہداء کی لاشوں کو نکالا گیا، جن میں بہت سوں کو زندہ دفن کیا گیا تھا۔ 109,274 زخمی اور متاثرہ افراد کو اسپتالوں تک پہنچایا گیا۔

میڈیا کارکنوں میں سے 399 افراد زخمی ہیں۔ متاثرین میں سے 70 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ اسرائیلی فوج نے 218 پناہ گاہوں اور مہاجر کیمپوں کو نشانہ بنایا۔ غزہ کی پٹی کا صرف 10 فیصد علاقہ محفوظ ہے، جسے اسرائیلی قابض افواج “انسانی علاقے” قرار دیتی ہیں۔ 35,074 بچے یتیم ہوچکے ہیں، جو اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں۔ 12,132 خواتین نے اجتماعی نسل کشی کی جنگ میں اپنے شوہر کھو دیئے ہیں۔ 3,500 بچے غذائی قلت اور خوراک کی کمی کے باعث موت کے خطرے سے دوچار ہیں۔ 246 دن سے اسرائیلی قابض افواج نے غزہ کی آخری گزرگاہ کو بھی بند کرکے پٹی کا مکمل محاصرہ کر رکھا ہے۔ 12,660 زخمیوں کو بیرون ملک علاج کے لیے سفر کی ضرورت ہے، مگر قابض درندے اجازت نہیں دے رہے۔ 12,500 کینسر کے مریض موت کے خطرے سے دوچار ہیں اور علاج کی سہولت ناپید۔ 3,000 مختلف قسم کے مریضوں کو بھی بیرون ملک علاج کے لیے جانے نہیں دیا جا رہا۔ 2,136,026 افراد جو نقل مکانی کی وجہ سے متعدی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ 71,338 افراد ہیپاٹائٹس کی وبا سے متاثر ہوئے۔ تقریباً 60,000 حاملہ خواتین صحت کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے خطرے سے دوچار ہیں۔ 350,000 دائمی بیماریوں کا شکار افراد دوائیوں کی ترسیل کی بندش کی وجہ سے خطرے میں ہیں۔6,600 افراد کو نسل کشی کے دوران قابض افواج نے غزہ سے گرفتار کیا ہے۔ ڈاکٹروں سمیت طبی عملے کے 331 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے 3 کو قابض افواج نے جیل میں ہی قتل کر دیا۔43 صحافی جن کے نام معلوم ہیں، انہیں گرفتار کیا گیا۔26 سول ڈیفنس کے افراد کو گرفتار کیا گیا۔2 ملین افراد غزہ کی پٹی میں بے گھر ہیں۔ 110,000 خیمے جو بارشوں اور آندھیوں سے تباہ ہوگئے۔ 214 حکومتی دفاتر کو اسرائیلی افواج نے تباہ کر دیا۔136 اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو مکمل طور پر اور 355 تعلیمی عمارتوں کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا۔ 12,794 طلباء اور طالبات کو اسرائیلی قابض افواج نے جنگ کے دوران شہید کر دیا۔ 785,000 طلباء اور طالبات کو صہیونیوں نے تعلیم سے محروم کر دیا۔ 759 اساتذہ اور تعلیمی عملے کو قابض افواج نے جنگ کے دوران شہید کر دیا۔149 سائنس دان، ماہرین تعلیم، اساتذہ اور محققین قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہوگئے۔823 مساجد کو درندوں نے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔158 مساجد کو شدید نقصان پہنچایا اور اب انہیں بھی دوبارہ تعمیر کی ضرورت ہے۔3 گرجا گھروں کو قابض افواج نے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔19 قبرستانوں کو مکمل طور پر اور 60 کو جزوی طور پر تباہ کیا گیا۔2,300 لاشوں کو قابض افواج نے غزہ کے مختلف قبرستانوں سے چرا لیا۔161,600 رہائشی یونٹس کو قابض افواج نے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ 82,000 رہائشی یونٹس کو ایسا شدید نقصان پہنچایا ہے کہ اب وہ رہائش کے قابل نہیں ہیں۔ 194,000 رہائشی یونٹس کو جزوی طور پر تباہ کیا۔ ان 460 دنوں میں انسانیت دشمن صہیونی دہشت گردوں نے غزہ کی محصور و محدود پٹی پر88,000 ٹن دھماکہ خیز مواد برسایا ہے۔ 34 اسپتالوں کو قابض افواج نے سروس سے باہر کر دیا۔ 80 صحت کے مراکز کو تباہ کردیا۔ مجموعی طور پر 162 صحت کے ادارے قابض افواج کا نشانہ بنے ہیں۔136 ایمبولنسوں کو نشانہ بنایا گیا۔206 تاریخی اور ثقافتی مقامات قابض افواج نے تباہ کریئے۔ 3,130 کلومیٹر طویل بجلی کے تاروں کا نیٹ ورک ختم کر دیا گیا۔125 زیر زمین بجلی کی ترسیل کے ٹرانسفارمرز قابض افواج نے تباہ کیے۔ 330,000 میٹر طویل پانی کی پائپ لائنوں کے نیٹ ورک کو تباہ کیا گیا۔ غزہ کی زراعت، آب نوشی کے وسائل، سیوریج سسٹم تقریباً ختم کردیا گیا۔ خلاصہ یہ کہ صہیونی درندوں کے ہاتھوں غزہ کی شہری آبادی کو ایک بے مثال تباہی کا سامنا ہے۔

Related Posts