اقتدار کے ایوانوں میں اختلافات کی گونج، کیا فواد چوہدری کے بیان کو سنجیدہ لیا جائے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اقتدار کے ایوانوں میں اختلافات کی گونج، کیا فواد چوہدری کے بیان کو سنجیدہ لیا جائے؟
اقتدار کے ایوانوں میں اختلافات کی گونج، کیا فواد چوہدری کے بیان کو سنجیدہ لیا جائے؟

پاکستان تحریکِ انصاف کے سینئر مرکزی رہنما، سابق وزیرِ اطلاعات و موجودہ وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے ایک متنازعہ بیان کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں اختلافات کی گونج سنائی دے رہی ہے جس کے بعد عوام الناس اس کے حوالے سے مختلف سوالات پر گفتگو میں مصروف ہیں۔

ہمارا آج کا سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری نے آخر ایسی کیا بات کہی جس پر خود تحریکِ انصاف کے اہم عہدوں پر براجمان سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر کے بیان کو سنجیدہ نہ لیا جائے؟ ہم اس سے متضاد سوال یہ کر رہے ہیں کہ فواد چوہدری کے بیان کو سنجیدہ لینے میں آخر ہرج ہی کیا ہے؟

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں فواد چوہدری کا وہ بیان کیا تھا، اس کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں کیا ہوا؟ اور وزیرِ اعظم عمران خان سمیت تحریکِ انصاف کو ایسے سیاسی و نظریاتی اختلافات کے حل کیلئے کیا کرنا چاہئے۔ کچھ کرنا ضروری بھی ہے یا یہ معاملہ بھی دیگر بہت سے زیرِ التواء معاملات کی طرح تعطل کا شکار چھوڑنا ہی بہتر ہوگا؟

فواد چوہدری کا متنازعہ بیان

آج سے 2 روز قبل دئیے گئے وفاقی وزیر فواد چوہدری کے بیان کے مطابق وفاقی حکومت 6 مہینے کی مہمان ہے، اگر کارکردگی نہ دکھائی گئی تو معاملات کسی اور طرف جاسکتے ہیں۔ امریکی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت کارکردگی نہیں دکھا سکی۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت بننے کے بعد جہانگیر خان ترین، وزیرِخارجہ شاہ محمود قریشی اور اُس وقت کے وزیرِ خزانہ اسد عمر میں شدید جھگڑے ہوئے جبکہ اسد عمر کو وزارتِ خزانہ سے فارغ کروانے والے جہانگیر ترین تھے۔

فواد چوہدری کے مطابق بعد میں اسد عمر نے آ کر جہانگیر ترین کا تخت الٹ دیا۔ تحریکِ انصاف کے اندرونِ خانہ تنازعات حکومت کیلئے خسارے کاباعث بنے۔ مشیر فیصلے کرتے جا رہے ہیں اور وزراء اور اہلِ سیاست ہاتھ پر ہاتھ دھرے منہ دیکھنے میں مصروف ہیں۔

اقتدار کے ایوانوں میں ہلچل

وزیرِ سائنس و ٹیکنالوجی کے بیان کا نشر ہونا تھا کہ وفاقی وزراء، سیاسی زعماء اور صوبائی وزارتوں سمیت اقتدار کے ایوانوں میں اتھل پتھل شروع ہوگئی۔ فواد چوہدری کے حق میں اور خلاف بیانات دئیے جانے لگے۔ سب سے سخت بیان پنجاب کے صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے دیا۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ فواد چوہدری سقراط، بقراط اور ارسطو بننے کا خبط ذہن میں پال رہے ہیں۔ نظم و ضبط کی خلاف ورزی انہیں کسی سیاسی جماعت میں ٹکنے نہیں دیتی۔ انٹرویو میں پارٹی کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والے فواد چوہدری کو چاہئے کہ اگر حکومت سے مطمئن نہیں تو مستعفی ہوجائیں۔

نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما عندلیب عباس نے کہا کہ ضروری نہیں فواد چوہدری کی ہر بات درست سمجھی جائے جبکہ وہ خود اسے اپنا تجزیہ قرار دے چکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی نے پولیس اور تعلیمی اصلاحات 3 سال بعد کیں جبکہ وفاق میں ہمیں 2 سال ہوئے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واؤڈا نے کہا کہ فواد چوہدری نے 6 ماہ کی بات جو کہی، اسے غلط رنگ دیا گیا ہے، حکومت کہیں جا نہیں رہی بلکہ 6 ماہ کا عرصہ تعمیراتی صنعت کے متعلق ہوسکتا ہے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ فواد چوہدری کا تجزیہ واقعی غلط تھا۔ اختلافِ رائے کا اظہار اندرونی طور پر کیا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن رہنماؤں کا ردِ عمل 

قائدِ حزبِ اختلاف قومی اسمبلی شہباز شریف نے کہا کہ کورونا وائرس سے جنگ کو چھوڑ کر وفاقی وزراء آپس میں لڑنے لگ گئے ہیں۔ تبدیلی سرکار کتنی سنجیدہ ہے، ان کی لڑائیوں سے پتہ چلتا ہے۔

شہباز شریف نے کہا کہ ہر روز ہزاروں لوگ کورونا وائرس کے مریض بن جاتے ہیں اور سینکڑوں موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، تحریکِ انصاف کی حکومت مفادات کی جنگ میں پاکستان کو تباہ کرنے میں مشغول ہے۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اور وزیرِ اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا کہ فواد چوہدری کی کچھ باتوں میں حقیقت بھی ہوسکتی ہے۔ تحریکِ انصاف کی کارکردگی ہم سب کے سامنے ہے۔

اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن

جمہوریت کے نظام میں بے شمار خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن اس کا یہ اصول کہ اختلافِ رائے کو اپنا حسن قرار دیتا ہے، ایک خوبصورت اصول ہے کیونکہ ایک گھر میں رہتے ہوئے بہن بھائیوں میں بھی جھگڑے ہوجایا کرتے ہیں، سیاسی رہنماؤں کے درمیان تو سیاسی، ملکی، ذاتی اور اقتدار کے حصول سے متعلق ہزاروں مفادات ہوتے ہیں۔

ایسے میں وزیرِ اعظم عمران خان کو سیاسی و نظریاتی اختلافات کو ختم کرنے کی بجائے وفاقی وزراء کو اختلافات کے ساتھ افہام و تفہیم سے رہنے کی تربیت دینا ہوگی۔ خود عمران خان کی ذات وفاقی وزراء کیلئے ایک زندہ مثال ہے جو اگر کوئی بات غلط کہہ جائیں تو اس سے پیچھے ہٹنے میں وزیرِ اعظم ہونے کے باوجود کوئی عار نہیں سمجھتے۔

لوگ لاکھ عمران خان کو یوٹرن خان کہیں یا دوغلی پالیسی کے الزامات لگائیں، مؤقف اگر غلط ثابت ہو گیا تو اس سے پیچھے ہٹنے میں ہی عافیت ہوتی ہے جس کا برملا اقرار کوئی بہادر شخص ہی کرسکتا ہے۔ اس لیے فواد چوہدری سمیت تمام وفاقی وزراء کو وزیرِ اعظم عمران خان سے یہ سیکھنا ہوگا کہ اقتدار کے ایوانوں میں مناسب انداز میں کیسے رہنا ہے۔ 

فواد چوہدری کا بیان سنجیدہ لیا جائے؟

وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کے بیان کو سنجیدہ لینے سے قبل ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ خود ان کے مفادات کیا ہیں؟ کیا وہ وزارتِ اطلاعات سے ہٹائے جانے پر وزیرِ اعظم عمران خان سے یا دیگر سیاستدانوں سے خفا ہیں؟ یا ایسے متنازعہ بیانات کی سیریز کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ سمجھیں کہ فواد چوہدری کے مفادات کچھ اور ہیں۔

دراصل بات یہ ہے کہ جس کرسی پر فواد چوہدری براجمان ہیں، وہاں سے اوپر یا تو وزارتِ عظمیٰ ہے جس کی دوڑ میں بعض متنازعہ اطلاعات کے مطابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف شامل ہیں۔فواد چوہدری شاید کسی نئے سیٹ اپ کی راہ ہموار کرنے میں مصروف ہیں جہاں وہ اپنی کرسی زیادہ اونچی رکھ سکیں۔

دوسری جانب حقائق کا تجزیہ کرنے پر یہ صورتحال سامنے آتی ہے کہ فواد چوہدری کے بیانات اقتدار کے ایوانوں میں جاری رسہ کشی کے تناظر میں زیادہ دروغ گوئی پر مبنی بھی نہیں۔ بیانات میں سچائی کسی نہ کسی سطح پر اپنی جھلک ضرور دکھا جاتی ہے۔ اس لیے کم از کم سیاسی رہنماؤں کے اختلافات کی حد تک انہیں درست سمجھا جانا چاہئے۔ 

Related Posts