سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں میڈیا کو آزادی دی گئی جبکہ جنرل (ر) مشرف نے سال 2000 میں پی ٹی اے کو کیبل ٹی وی چلانے کی اجازت دے کر لائسنسز بھی جاری کیے۔
سال 2002 میں جب پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کا قیام عمل میں لایا گیا تو میڈیا آپریشنز کی نگرانی اس کے سپرد ہوئی جبکہ پاکستان میں میڈیا کو مکمل آزادی کبھی مستقل طور پر نہیں مل سکی۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف دبئی میں انتقال کر گئے
مختلف حکومتوں نے میڈیا کو عوامی بحث و تنقید سے کنٹرول کرنے کیلئے قانون اور آئین کو ذریعہ بنایا۔ پاکستان پر سویلین سے زیادہ فوجی حکومت قائم رہی۔ ہمیشہ سے میڈیا عموماً دھونس دھمکیوں اور معاشی دباؤ کا شکار رہا ہے۔ ملکی قوانین کو بھی صحافیوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔
ناقص خواندگی، میڈیا کا اپنا رجحان اور اخبارات کی بلند قیمت پاکستان میں میڈیا کی ترقی کیلئے مضر عوامل ہیں۔ عسکری حکام سمیت تمام حکومتیں میڈیا کی آزادی کی بات کرتی ہیں تاہم یہ آزادی ملتی نہیں ہے۔
کم و بیش 9 سال تک جنرل (ر) مشرف کی فوجی و سول حکومت نے میڈیا کو ملے جلے کردار کی مدد سے چلایا۔ جنرل (ر) مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد الیکٹرانک میڈیا نے زبردست ترقی کی۔
نجی شعبے کو جنرل (ر) مشرف کے دور میں ہی ٹیلی ویژن اور ایف ایم ریڈیو چینلز کے قیام کے لائسنسز جاری کیے گئے۔ نجی شعبے کو ایف ایم پر خبریں نشر کرنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
جب تک حالات جنرل (ر) مشرف کے دورِ حکومت کیلئے سازگار رہے، وہ میڈیا پر مہربان نظر آئے تاہم سب کچھ اس وقت تبدیل ہوا جب ان کے غیر مقبول اور غیر جمہوری فیصلوں کی وجہ سے میڈیا نے ان پر تنقید شروع کی۔
معروف پی ایچ ڈی اسکالر ڈاکٹر ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ 9 مارچ 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معطل کردیا گیا۔ چیف جسٹس کی معطلی سے فوجی آمر اور میڈیا کے مابین اختلافات پیدا ہو گئے۔
میڈیا کے وہ لوگ جو آزادئ اظہار، جمہوریت اور انصاف پر یقین رکھتے تھے، انہوں نے چیف جسٹس کی معطلی اور سپریم جوڈیشل کونسل میں ہونے والی سماعت کے معاملے پر تمام واقعات رپورٹ کیے۔
یہ وہ رپورٹنگ تھی جس سے رائے عامہ تبدیل ہوئی۔ نتیجتاً جنرل (ر) پرویز مشرف کی ساکھ خراب ہوئی۔ میڈیا کو کنٹرول میں لانے کیلئے متعدد اقدامات اٹھائے جو آزاد میڈیا کیلئے ناقابلِ قبول تھے۔
حیرت انگیز طور پر میڈیا نے پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ملک میں خوف کی فضا کم کردی اور عوام، وکلاء، سیاستدانوں اور سول سوسائٹی کے اراکین کو معطل چیف جسٹس سے ہمدردی کی ترغیب دی۔
ایک آئینی درخواست پر 13 رکنی ججز بینچ نے 20 جولائی 2007 کو چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بحال کردیا۔ جنرل مشرف نے اعلان کیا کہ وہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کریں گے، تاہم ان کے اقدامات غیر جمہوری ثابت ہوئے۔
لال مسجد واقعے میں جولائی 2007 میں مدرسے کے معصوم طلبہ و طالبات کو طاقت کا وحشیانہ استعمال کرتے ہوئے قتل کیا گیا۔ اسلام آباد میں شہری زندگی تباہ ہو کر رہ گئی۔ لال مسجد کے اردگرد کا علاقہ میدانِ جنگ بن گیا۔
عوام کو لال مسجد تک رسائی نہیں دی جارہی تھی۔ مسجد خالی کرانے کیلئے جنگی ہتھیار اور میدانِ جنگ کی تکنیک استعمال کی گئی۔ میڈیا نے واقعے کو حکومت کی خواہشات کے برعکس رپورٹ کیا۔
سپریم کورٹ اور سول سوسائٹی لال مسجد کی کارروائی سے خوش نہیں تھی۔ عوام نے حکومت سے بار بار درخواست کی کہ وہ طاقت کا استعمال روکے، چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی اور لال مسجد جیسے واقعات جنرل (ر) مشرف کی حکومت کے زوال کا باعث بن گئے۔