کالعدم ٹی ایل پی پر بھارت سے پیسہ لینے کاالزام اور مذاکرات، حکومت کے موقف میں تضاد کیوں ہے ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

What should the state do against TLP-India nexus?

وفاقی حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے بھارت کے ساتھ روابط سامنے آنے کے بعد پرتشدد احتجاج کو روکنے کیلئے سخت اقدامات شروع کردیئے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور کالعدم تنظیم کے ساتھ عسکری ونگ جیسا برتاؤ کیا جائیگا۔

حکومت نے پنجاب میں احتجاج روکنے کیلئے رینجرز تعینات کردی ہے جبکہ پاک فوج کو بھی تیار رہنے کا حکم دیدیا گیا ہے ۔

ٹی ایل پی کا احتجاج
کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کیخلاف اپریل میں احتجاجی تحریک شروع کرتے ہوئے فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کا مطالبہ کیاتھا جبکہ پنجاب سمیت دیگر شہروں میں پرتشدد مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

تھانے پر حملہ اور سرکاری و نجی املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا تھا ان واقعات کے بعد حکومت نے تحریک لبیک کو کالعدم قرار دیدیا تھا اور امیرٹی ایل پی سعد رضوی کو گرفتار کرلیا تھا۔

تنظیم پر پابندی
تحریک لبیک پاکستان تحریک لبیک یا رسول اللہ نامی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی کی زیر قیادت قائم ہوئی اورموجود امیر جانشین سعد حسین رضوی ہیں جو اس وقت جیل میں ہیں۔14 اپریل 2021کو تحریک لبیک پر انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت پابندی عائد کر دی گئی۔

حکومت پاکستان نے انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 رول 11 کے تحت 15 اپریل 2021 کو تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کردی تھی۔

سعد رضوی کی رہائی کا مطالبہ
کالعدم تحریک لبیک کے کارکنان نے امیر سعد رضوی کی رہائی کیلئے 12 ربیع الاول کو ایک بار پھر پنجاب میں احتجاج کا سلسلہ شروع کیا جس کا دائرہ اسلام آباد تک وسیع کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر حکومت نے اسلام آباد جانے والے راستوں اور پنجاب کے کئی شہروں میں خندقیں کھودنے اور کنٹینر لگانے سمیت متعدد اقدامات اٹھائے تھے لیکن کالعدم تنظیم کے کارکنان کسی صورت پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔

حکومت کے مذاکرات
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے 23 اکتوبر کو وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید اور وزیرمذہبی امور پیر نور الحق قادری کو مذاکرات کی ذمہ داری دی جنہوں نے کالعدم تحریک لبیک کے رہنماؤں سے مذاکرات کئے اور بعد میں اتوار کے روز حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں تاہم ٹی ایل پی کارکنان منگل تک دھرنے پر موجود رہیں گے۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ کالعدم تنظیم کے مطالبات پر کام کررہے ہیں اور سیکڑوں کارکنوں کو رہا کردیا گیا ہے تاہم فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے حکومت نے فوری فیصلہ کرنے کے بجائے ایک بار پھر پارلیمان جانے کا اعلان کیا تھا۔

کابینہ کا فیصلہ
وزیراعظم پاکستان عمران خان کی زیر صدارت گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ کالعدم تنظیم کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کی جائیگی اور ٹی ایل پی کے ساتھ عسکری تنظیم کی طرح ہی نمٹا جائیگا۔

وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ کسی بھی صورت میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔پہلے 6 مرتبہ تماشہ لگ چکا ہے اور ہم نے بڑے صبر کا مظاہرہ کیا جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ لوگوں کو نقصان پہنچے، ٹی ایل پی کی قیادت چاہتی ہے کہ لوگوں کا خون سڑکوں پر نظر آئے۔

ٹی ایل پی کابھارت سے گٹھ جوڑ
حکومت پنجاب کی طرف سے عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ کالعدم جماعت ٹی ایل پی کے فنانس سیکریٹری کے بھائی بھارت کے ساتھ رابطے میں ہیں۔رپورٹ کے ساتھ منسلک بینک اسٹیٹمنٹ کے مطابق ٹی ایل پی کے فنانس سیکریٹری کے بھائی کے اکاؤنٹ میں رقوم بھیجی جا رہی ہیں۔

5 جولائی 2021 کو ایسی ہی ایک ترسیل راجیش ہمت لال اور مکیش ہمت لال کی طرف سے اس اکاونٹ میں بھیجی گئی جو اس وقت متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔فنڈنگ کے لیے سیلولر کمپنی کے اکاؤنٹس اور ہنڈی چینل بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔

حکومت پنجاب نے 11 اکتوبر 2021 کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں ٹی ایل پی کے سربراہ کی نظر بندی کو غیر قانونی قرار دینے کے لاہور ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوے سپریم کورٹ میں یہ رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے 524 کارکنان اپنی غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے اے ٹی اے 1997 کے شیڈول IV میں شامل ہیں جن میں سے 195 نے ابھی تک ضمانتی بانڈز جمع نہیں کرائے ہیں، جس سے ان کے توہین آمیز رویے کی نشاندہی ہوتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق صراط المستقیم کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ چلایا جا رہا ہے جس کا ایڈمن بھارت میں مقیم ہے جس میں 117 ہندوستانی اراکین کی شناخت بھی کی گئی ہے چونکہ ٹی ایل پی کے سربراہ اور ان کے ساتھی اپنے انتہا پسندانہ موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اس لیے اس بات کے امکانات ہیں کہ دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں اور ان کی سرپرستی میں نام نہاد اسلامی عسکری تنظیمیں فائدہ اٹھا کر سعد رضوی کے نظریے اور بیان بازی کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کر سکتی ہیں۔

ریاست کی ذمہ داری
کالعدم تحریک لبیک گزشتہ چند سال میں اپنے پرتشدد مظاہروں کی وجہ سے تیزی سے ابھر کر سامنے آئی ہے ، سابق امیر خادم حسین رضوی کی قیادت میں اس تنظیم نے ماضی میں بھی پرتشدد احتجاج کو ہوا دی اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

حکومت گزشتہ ہر احتجاج میں معاملات کو افہام و تفہیم سے سلجھانے کیلئے مذاکرات کرنے اور تنظیم کے کارکنوں کو جیلوں سے رہائی دیتی رہی ہے۔

اب ایک بار پھر کالعدم تنظیم کے احتجاج کا سلسلہ وسیع ہورہا ہے اور اس پرتشدد احتجاج کے دوران پولیس اہلکاروں سمیت شہریوں کی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔

اب ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ایسے شرپسند عناصر کے ساتھ اسی طرح نمٹا جائے جس کے یہ مستحق ہیں اور ملک میں منفی سیاست اور پرتشدد مظاہروں کا یہ سلسلہ بند کروایا جائے۔

Related Posts