4 سالہ بچی سے زیادتی، اب بھی معاشرہ جاگے گا یا نئے سانحے کا انتظار ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Rape of minor girl - Is society waiting for a disaster?

پاکستان میں جنسی زیادتی کے واقعات میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کشمور میں ماں اور چار سالہ بچی کے ساتھ جنسی درندگی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

واقعہ کے بعد جب پولیس نے بچی کو اپنی تحویل میں لیا تو معصوم بچی نے اپنا جسم دکھاتے ہوئے کہا کہ پولیس انکل ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا، کیا ہے اور موقع پر موجود لوگ اور سوشل میڈیا پر دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔

کشمور میں درندہ صفت ملزمان نے کراچی سے اغواء کی گئی خاتون تبسم اور اس کی چار سالہ بچی کو اغواء کیا اور 3 روز تک جنسی درندگی کرتے رہے، بچی کی ماں کو اس شرط پر چھوڑا گیا کہ وہ جنسی بھیڑیوں کیلئے کسی اور لڑکی کا انتظام کرکے لائے تب اس کی بیٹی کو چھوڑیں گے، جس پر مجبور بے کس ماں نے پولیس سےرابطہ کیا اور خلاف معمول پولیس نے متاثرہ خاتون کا ساتھ دیا وگرنہ ہمارے ملک میں متاثرین کو پولیس بھی خوب ستاتی ہے اور اکثر ملزمان کے ساتھ ساز باز کرکے متاثرین کو دبایا جاتا ہے لیکن کشمور پولیس نے فرض شناسی کے ساتھ انسانیت کی بھی ایسی مثال قائم کی ہے کہ پورا پاکستان کشمور پولیس کو دل کی گہرائیوں سے سلام پیش کررہا ہے۔

تبسم پولیس کے پاس پہنچی تو ملزمان کو جھانسہ دیکر پکڑنے کے لئے لڑکی کی ضرورت پڑی جس پر اے ایس آئی محمد بخش نے مدد کے لئے اپنی بیٹی پیش کرتے ہوئے اسے ملزمان سے بات کروائی اور ملزمان تک پہنچے، مرکزی ملزم رفیق ملک گرفتار ہوا۔ملزم رفیق نے اپنے جرم کا اعتراف بھی کرلیا ہے جو ریمانڈ پر پولیس کسٹڈی میں ہے اور اس کے ساتھیوں کی تلاش جاری ہے۔

پاکستان میں گزشتہ کچھ عرصہ سے جنسی زیادتی کے واقعات میں ہولناک اضافہ ہوا ہے، قصور کی زینب ہو یا کراچی کی علیشا جنسی درندوں نے وحشت و بربریت کی ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ سوچ کر ہی دل دہل جاتا ہے، قلم لکھنا چھوڑ دیتا ہے اور آنکھیں بھر آتی ہیں اور ایک ہی بات ذہن میں آتی ہے کے ہمارا معاشرہ آخر کس طرف جارہا ہے۔

موٹروے پر فرانس پلٹ خاتون کو اسکے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، فیصل آباد میں 60 سالہ ماں اور 37 سالہ بیٹی کے ساتھ عصمت دری کی گئی اور ایسے درجنوں واقعات معاشرے پربدنما داغ بن چکے ہیں۔ملک کے مختلف شہروں میں روزانہ بچوں، بچیوں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات تواتر کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔

قصور کی زینب سے زیادتی اور قتل کے بعد پورے ملک میں ایک احتجاج کی لہر اٹھی جس کے بعد زیادتی کے ملزم کو گرفتار کیا گیا اور جرم ثابت ہونے پر مجرم کو دو سال قبل تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن اس کے باوجود جنسی درندوں نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور محض تھوڑی سی جنسی تسکین کیلئے معصوم زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ جاری ہے۔

ہمارا معاشرہ آہستہ آہستہ مزید خرابی کی طرف جارہا ہے، ملک میں جنسی زیادتیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات معاشرے کی بے حسی کو ظاہر کرتے ہیں۔زینب کے واقعہ کے بعد اٹھنے والا شور ایک دم جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور اس کے بعد لاتعداد واقعات رونما ہوئے لیکن ہم اس چیزوں کے عادی ہونے کی وجہ سے بے حس ہوتے جارہے ہیں۔

موٹروے زیادتی کے واقعہ میں جب پولیس موقع پر پہنچی تو خاتون کی حالت انتہائی خراب تھی، اس خاتون کے جسم سے زیادہ روح پر زخم آئے تھے اور موقع پر پہنچنے والے پولیس حکام بھی خاتون کی حالت دیکھ کر زاروقطار روپڑے تھے۔3،4،5 سال کی بچیوں کے ساتھ زیادتی کرنیوالے کسی صورت انسان نہیں ہوسکتے لیکن ان کو جانور کہنا بھی مناسب نہیں ہے کیونکہ جانور بھی اپنے ہم جنسوں کے ساتھ ایسا سلو ک نہیں کرتے۔

ملک میں عصمت دری کے واقعات میں اضافے کیلئے کوئی ایک ادارہ ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں، چار سالہ علیشا کی جو حالت ہے اس میں ہم بھی برابرکے شریک ہیں کیونکہ ہم اس واقعات کو محض ایک خبر سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان وحشی درندوں کو حوصلہ ملتا ہے اور یہ وحشی درندے کچھ وقت کیلئے جیل جاتے ہیں اور پھر باہر آکر پہلے سے زیادہ بربریت مچاتے ہیں جیسا کہ موٹروے کیس میں دیکھا گیا کہ ملزم عابد پہلے بھی جنسی زیادتی کے واقعات میں جیل جاچکا ہے اور ضمانت پر رہا ہوا تھا۔

ننھی علیشا نے صرف اپنے کپڑے نہیں ہٹائے بلکہ پورے معاشرہ کو برہنہ کرکے رکھ دیا ہے ، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ زنگ نسل، ذات پات اور ہر طرح کے مفادات سے قطع نظر ایک قوم بن کر ان واقعات کیخلاف آواز اٹھائیں اور جنسی درندوں کو انجام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں اور پشت پناہی کرنیوالوں کو عبرت کا نشان بنایا جائے تاکہ ہماری بیٹیاں ایسے وحشی درندوں کی ہوس سے محفوظ رہ سکیں۔

Related Posts