موثر قومی بیانیے کی تشکیل کے لئے اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے، معید یوسف

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

موثر قومی بیانیے کی تشکیل کے لئے اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے، معید یوسف
موثر قومی بیانیے کی تشکیل کے لئے اداروں میں ہم آہنگی کی ضرورت ہے، معید یوسف

اسلام آباد:مشیر قومی سلامتی معید یوسف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ’غیر معذرت خواہانہ‘ انداز سے اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

قومی بیانیے سے متعلق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اس سے متعلق اپنے نقطہ نظر کا خاکہ 3 الفاظ میں پیش کیا،فعال غیر معذرت خواہانہ اور حقیقت پسندانہ۔انہوں نے کہاکہ ورچوئلی ہم جب بھی رابطہ کریں یہ 3 اصول ہمیں ہر اس جگہ لے جاسکتے ہیں جہاں ہم جانا چاہیں۔

پاکستان کے لیے شرمانے کی کوئی وجہ نہیں ہے کیوں کہ ہمارے پاس کچھ چھپانے کے لیے نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پاکستان سے متعلق مغربی بیانیے کو اس حد تک جذب کر لیا ہے کہ اندرونی طور پر بھی یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا پاکستان کا بیانیہ درست ہے؟

مشیر قومی سلامتی نے کہا کہ یہ ان کیلئے سر چکرانے والی صورتحال ہے کیوں کہ ان کے مطابق پاکستان کے پاس یہ بتانے کیلئے ایک حقیقی کہانی تھی کہ ملک کیا کر رہا تھا اور کس کے لیے کھڑا تھا اور اس کے لیے معذرت خواہانہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس اصل میں ایک کہانی ہے جو قابل یقین، منطقی اور سچی ہے، جسے ہمیں دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ وہ یہ سمجھ سکیں کہ ہم کون ہیں اور ہم کس کے لیے کھڑے ہیں۔

ان مسائل کو اجاگر کرتے ہوئے کہ جو انہوں نے شناخت کیے معید یوسف نے کہا کہ سب سے اہم چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ پریشان کیا اور اب بھی کرتی ہے وہ ’پاکستان میں رابطے کے طریقوں میں، مقامی سے زیادہ عالمی، غیر معذرت خواہانہ طور پر اپنا نقطہ نظر پیش کرنے میں شرمانے کا عنصر ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ جب پاکستان کے پاس سنانے کو کہانی ہے اور جانتا تھا کہ اسے کیسے بتانا ہے تو پھر جذباتی نہیں بلکہ زیادہ غیر معذرت خواہانہ طور پر، یہ بات چیت کیوں نہیں کی گئی کہ واضح کیا جائے کہ پاکستان فلاں فلاں کام کرنے جا رہا ہے کیونکہ یہ ہمارے اسٹریٹجک مفادات میں ہے۔

دیگر مسائل کی وضاحت کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ پاکستان جدید پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا جیسے ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تیز رفتار اسٹریٹجک مواصلات میں دوسرے ممالک سے پیچھے تھا۔انہوں نے کہاکہ کسی حد تک شاید آج بھی تعلقات عامہ کی ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں کہ پریس ریلیز اور چیزوں کا اپنے وقت پر جواب دینا۔

معید یوسف کے مطابق ایک اور مسئلہ اپنی زبان دوسروں سے بولنا اور دوسروں سے اسے سمجھنے کی توقع کرنا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہر موقع پر ہر سامعین کے سامنے ایک ہی بیانیے اور گفتگو کے نکات ہر جگہ استعمال نہیں کیے جا سکتے۔

مزید پڑھیں: فرخ حبیب نے کشمیر میں 7سالہ بھارتی دہشتگردی کے اعدادوشمار جاری کردئیے

انہوں نے کہا کہ مواد سے ہٹ کر یہ بھی اہم ہے کہ کون اسے پہنچا رہا ہے اور کس طرح پہنچا رہا ہے۔مشیر قومی سلامتی نے ایک اور مسئلے کو اجاگر کرتے ہوئے سوال کیا کہ پاکستانیوں کی آواز کیوں زیادہ کیوں نہیں سنی جا رہی اور کیوں زیادہ لوگ اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کے لیے کچھ نہیں لکھ رہے یا پیش نہیں کر رہے۔

Related Posts