سوڈانی فورسز میں باہمی جنگ کیسے شروع ہوئی، انجام کیا ہوگا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جنرل عبد الفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی فوج اور جنرل محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی کی زیر قیادت سریع الحرکت فورس  کے درمیان سوڈان میں جاری خونریز لڑائی کے نتیجے میں شہری ہلاکتیں سو سے زیادہ ہوگئی ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں۔ علاوہ ازیں مختلف ممالک کے سفارتی مشنز بھی فورسز کے درمیان جاری لڑائی کی زد میں آئے ہیں اور ساتھ ہی غیر ملکیوں کا بڑے پیمانے پر انخلا بھی جاری ہے۔

مسلح لڑائی سے پہلے کئی مہینے تک 45 ملین سوڈانی فوج کی خود مختاری کونسل کے سربراہ جنرل البرہان اور ان کے نائب جنرل حمدان دقلو المعروف حمیدتی کے درمیان اقتدار پر قبضے کیلئے سیاسی چپقلش زوروں پر رہی جو آخر کار بڑھتے بڑھتے مسلح تصادم میں تبدیل ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں:

القاعدہ کے بعد کیا امریکا اب داعش کی آڑ میں افغانستان پر چڑھائی کرے گا؟

ہفتے کے روز (پاکستان میں عید کے دن) یہ تنازع سوڈان کے دار الحکومت خرطوم اور دیگر شہروں میں پرتشدد مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گیا حتی کہ گولا باری کے علاوہ لڑاکا طیارے بھی مختلف مقامات پر بمباری کرتے دیکھے گئے۔

مرنے والوں میں مغربی سوڈان (جو جمہوریہ سوڈان سے الگ ہونے والا عیسائی اکثریتی نیا ملک ہے) کے علاقے دارفور میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے تین کارکن بھی شامل ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے موجودہ صورتحال کی وجہ سے سوڈان میں اپنا کام معطل کر دیا ہے، اس کے علاوہ امریکا، یورپی ممالک، پاکستان اور سعودی عرب کے سفارتی مشنز نے بھی اپنی بساط خرطوم سے لپیٹ دی ہے۔

البرہان اور حمیدتی ایک دوسرے پر لڑائی شروع کرنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ اسی طرح دونوں فورسز خرطوم اور دیگر شہروں کے اہم مقامات کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کر رہی ہیں تاہم ان کے دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے، آئیے جانتے ہیں کہ یہ لڑائی کیسے شروع ہوئی اور اس کا انجام کیا ہوگا؟ اور اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا؟

فورسز میں لڑائی کیسے شروع ہوئی؟

اکتوبر2021 میں جنرل البرہان کی سربراہی میں سوڈانی فوج نے بغاوت کرتے ہوئے ان شہریوں کا تختہ الٹ دیا جو فوج کے ساتھ اقتدار میں شریک تھے۔

2019 میں سابق صدر عمر البشیر کی معزولی کے بعد ایک عبوری انتظامیہ کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا، جس کے تحت جنرل البرہان نے حکمران خود مختاری کونسل کی صدارت سنبھالی اور جنرل حمیدتی کا اپنا نائب چنا، جسے تجزیہ کاروں نے ’’سہولت کی شادی‘‘ قرار دیا تھا۔

تجزیہ کاروں نے واضح کیا تھا کہ یہ کوئی حقیقی اتحاد یا شراکت داری نہیں ہے۔ دونوں فوجی جنرل اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اکٹھے ہیں اور تجزیہ کاروں کو اندازہ تھا کہ جہاں دونوں کے مفادات ٹکرائیں گے وہیں دونوں میں پھوٹ پڑ جائے گی اور خطرناک جنگ سوڈان کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے، چنانچہ مفادات کی یہ ساجھے داری زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکی۔ حمیدتی نے فروری میں البرہان کی بغاوت کو غلطی کہا اور پرانی حکومت کی واپسی کا اشارہ دیا۔

یہ بیانات البرہان اور حمدتی کی جانب سے ایک فریم ورک معاہدے پر دستخط کرنے کے دو ماہ بعد سامنے آئے جس میں سول پارٹیاں شامل تھیں۔ ان پارٹیوں میں فورسز فار فریڈم اینڈ چینج بھی شامل تھی جس نے سابق صدر عمر البشیر کے خلاف مظاہروں کی قیادت کی تھی، اس معاہدے میں دونوں فوجی حکام نے سویلین حکومت کے قیام کے بعد سیاسی منظر سے ہٹنے کا عہد کیا تھا مگر وہ عہد ہی کیا جسے کوئی طاقتور پورا کرے۔

اس سیاسی معاہدے میں جلد ہی اس وقت دراڑ پیدا ہوئی جس نے البرہان اور حمیدتی کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے میں اہم کردار ادا کیا، یہ دراڑ دراصل آر ایس ایف (سریع الحرکت فورس) کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کے معاملے سے برآمد ہوئی۔

چنانچہ اس منصوبے نے البرہان اور حمیدتی کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کیا۔ حمیدتی جو سریع الحرکت فورس کے سربراہ تھے، نے اس منصوبے کو البرہان کی جانب سے اپنی طاقت میں اضافے کی چال باور کیا اور سختی سے اس کی مزاحمت کا عندیہ دیا، اس طرح سریع الحرکت فورس کو سوڈان آرمی میں ضم کرنے کے منصوبے نے دونوں فورسز کو آمنے سامنے لاکھڑا کردیا، چنانچہ دونوں فورسز اپنا اپنا اسلحے کا ذخیرہ ایک دوسرے کے خلاف دھڑلے سے استعمال کر رہی ہیں، جس کی زد میں عام شہری، بیرونی سفارتی مشنز، املاک، ہوائی جہاز سمیت سب کچھ آ رہا ہے۔

سریع الحرکت فورسز کیا ہیں؟

ریپڈ سپورٹ فورسز کا قیام 2013 میں دارفور کے علاقے میں الجنجاوید ملیشیا کے بطن سے کیا گیا تھا۔ یہ غیر عرب قبائل کی بغاوت کو دبانے کے لیے جانی جاتی تھی۔ الجنجاوید پر غیر عرب اقلیتوں کے خلاف جنگی جرائم کرنے کا الزام تھا۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت نے عمر البشیر پر دارفور میں انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کے الزامات بھی عائد کیے تھے۔

2015 میں حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی حمایت میں سعودی زیر قیادت اتحاد کے ایک حصے کے طور پر یمن میں ریپڈ سپورٹ فورسز کے ارکان کو تعینات کیا گیا جس سے خطے میں دقلو کا تاثر بہتر ہوا۔

عمر البشیر کی معزولی کے بعد ریپڈ سپورٹ فورسز پر مزید جرائم کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا گیا کیونکہ وہ اس سکیورٹی مہم کا حصہ تھے جس نے جون 2019 میں خرطوم میں آرمی ہیڈ کوارٹر کے قریب سویلین حکومت کا مطالبہ کرنے والے دھرنے کو منتشرکیا تھا جس میں کم از کم 128افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بوسویل نے اے ایف پی کو بتایا کہ ریپڈ سپورٹ فورسز 2019 سے مسلسل بڑھ رہی ہیں جس سے حمیدتی کے اقتدار سے دستبردار ہونے کا امکان بہت کم ہوگیا ہے۔

آنے والے دنوں میں حالات کیا ہوں گے؟

اب کیا ہو رہا ہے کہ دونوں طرف سے طاقت کے بل اپنی موجودگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ شہروں کی گلیوں میں جنگ جتنی دیر تک جاری رہے گی شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ مادی نقصانات جمع ہوں گے۔ دونوں فورسز اپنی مقبولیت بھی کھو دیں گی۔ سوڈانی سڑکوں پر ہونے والی جنگ اور اپنے شہریوں کی ہلاکتوں کو نہیں بھولیں گے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ دونوں کیمپ مضبوط ہیں اور ان کے درمیان جنگ بہت مہنگی، خونی اور طویل ہو گی۔ اگر دونوں فریق خرطوم میں جزوی فتح حاصل کر لیتے ہیں تب بھی ملک بھر میں جنگ جاری رہے گی۔ سوڈان میں پہلے سے موجود بدترین حالات میں صورت حال مزید المناک واقعات کی طرف بڑھ رہی ہے۔

Related Posts