کراچی، ایف آئی اے زدہ معطل ای او بی آئی افسران گھر بیٹھے تنخواہیں لینے لگے

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی، ایف آئی اے زدہ معطل ای او بی آئی افسران گھر بیٹھے تنخواہیں لینے لگے
کراچی، ایف آئی اے زدہ معطل ای او بی آئی افسران گھر بیٹھے تنخواہیں لینے لگے

کراچی: ایمپلائز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹٹیوشن (ای او بی آئی) بدعنوان افسران کی آماجگاہ بن گیا، ایف آئی اے میں 35 ارب کے میگا لینڈ اسکینڈل اور 29 کروڑ کے شیئرز کی مشکوک خریداری میں ملوث معطل افسران سزاؤں کے برخلاف گھر بیٹھے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات حاصل کرنے لگے۔

انتظامیہ کی مبینہ ملی بھگت کے باعث 8 سال گزر جانے کے باوجود خردبرد کی گئی رقوم واپس نہ مل سکیں۔ سابق چیرمین ظفر اقبال گوندل کے 2010 سے 2013 کے دور میں 18 اراضی املا ک کی خریداری میں 35 ارب کا میگا لینڈ اسکینڈل  سامنے آیا اور 2015 میں ڈائریکٹر فنانس ہیڈ افس محمد ایوب خان کے بھاری کمیشن کی لالچ میں 29کروڑ مالیت کے شیئرز کی مشکوک خریداری ہوئی جس میں طویل عرصہ قبل بدعنوان افسران کو معطل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:

محکمہ تعلیم کی ناقص پالیسی، ہزاروں طلبہ کیلئے اعلی تعلیم کے دروازے بند 

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کیخلاف ٹرانسپورٹرز کا ہڑتال کا فیصلہ

تادیبی کارروائی کی بجائے معطل افسران کو بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات دئیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے جس میں مشکوک طریقے سے بھرتی ہونے والے بدعنوان افسران ایوب خان، ڈپٹی ڈی جی فنانس، آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس، عاصمہ عامر، ڈائریکٹر فنانس، محمد اجمل خان ڈائریکٹر فنانس اور سجاد احمد ریجنل ہیڈ فیصل آباد ساؤتھ سمیت دیگر اعلیٰ افسران شامل ہیں جبکہ ایوب خان 6 نومبر 2007 کو ای او بی آئی میں بھرتی ہوئے۔

ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق محمد ایوب خان، ڈائریکٹر فنانس، ہیڈ آفس نے ای او بی آئی میں رجسٹرڈ لاکھوں غریب بیمہ دار افراد کے امانتی پنشن فنڈ سے سرمایہ کاری کے نام پر بھاری کمیشن کے عوض ایک غیر معروف کاروباری کمپنی ایم ٹیکس سے انتہائی کم مالیت کے شیئرز انتہائی مہنگے داموں خریدے جس پر ایوب خان اور کاروباری کمنی کے دیگر افراد فرید عالم، محمد اقبال اور طارق کے خلاف ایف آئی اے میں 31 دسمبر 2015کو مقدمہ درج ہوا۔

مقدمے کے اندراج کے بعد ای او بی آئی انتظامیہ نے محمد ایوب خان، قائم مقام ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، فنانس ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس کو 8جنوری 2016 کو ملازمت سے معطل کردیا۔ معلوم ہوا ہے کہ محمد ایوب خان اسٹیٹ لائف انشورنس کارپویشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔ مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ نہ ہونے کے باوجود 6 نومبر کو انہوں نے ای او بی ائی میں جوائننگ دی۔ اس کے باوجود 12 نومبر 2007 تک اسٹیٹ لائف کے ملازم بھی رہے۔

اس دوران محمد ایوب خان کا استعفیٰ 8 نومبر 2007 کو منظور ہوا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک بار طیش میں آ کر سینئر افسر عبدالمجید، دپٹی ڈائریکٹر جنرل فنانس سے دست و گریباں ہو کر انہیں دھمکیاں دیں۔ ای او بی آئی میں آنے کے کچھ ہی عرصے میں ایوب خان سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر ہیڈ آفس کے اہم عہدوں ڈائریکٹر فنانس، ڈپٹی ڈی جی فنانس اور ڈی جی آڈٹ کے ساتھ ساتھ ای او بی آئی کے ذیلی ادارے سہارا انشورنس کمپنی کے سی ای او بھی بن گئے تھے۔

تحقیقات کے مطابق ایوب خان کی ماہانہ تنخواہ 2 لاکھ 28 ہزار سے زائد اور ان کے زیر استعمال سرکاری گاڑی ٹویوٹا کورولا ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں کے میڈیکل بلز، فیول چارجز، ڈرائیور الاؤنس، گھریلو ملازم کی تنخواہ، گاڑی کی مرمت، رہائش گاہ پر ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرٹینمنٹ کی مد میں انہیں 77ہزار روپے سے زائد رقم بھی ادا کی جاتی ہے جبکہ آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس نے بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے دور میں بدعنوانی کا ارتکاب کیا۔

آصف آزاد، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے 2010 سے 2013 کے مابین پنشن فنڈ کی سرمایہ کاری کے نام پر کروڑوں کی اراضی خریداری اسکینڈل کا دوسرا بڑا اور اہم کردار ہیں جو 28 جون 2007 کو چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے ایماء پر مشکوک طریقے سے ای او بی آئی میں بھرتی ہوئے اور اس وقت کے پی پی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے قریبی عزیز راجہ مقصود اور راجہ ثناء اللہ کو ای او بی آئی سے فائدہ پہنچایا۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے مطابق آصف آزاد نے راجہ پرویز اشرف کے رشتہ داروں کو بھاری مالی فوائد پہنچانے کیلئے موضع کلر کہار، ضلع چکوال میں واقع 8 کنال اراضی 3 کروڑ 20 لاکھ میں خریدی۔ انہوں نے راجہ مقصود الحق اور راجہ ثناء اللہ سے چکوال، تلہ گنگ روڈ پر 1.9 کنال کا پلاٹ بی 6 کروڑ 4لاکھ میں خریدا لیکن رجسٹری کے وقت اس کی قیمت 1 کروڑ 17 لاکھ روپے ظاہر کی۔ ایف آئی اے کرائم سرکل راولپنڈی میں آصف آزاد پر 6کیسز درج ہیں۔

مذکورہ بالا تحقیقات کے مطابق آصف آزاد ایف آئی اے کی جانب سے درج شدہ ایف آئی آر نمبر 28/2013 در معاملہ کراؤن پلازہ اسلام آباد، ایف آئی آر نمبر 53/2013 در معاملہ ریور ایج ہاؤسنگ اسکیم،لاہور،ایف آئی آر نمبر54/2013 درمعاملہ ریور ایج ہاؤسنگ اسکیم،لاہور، ایف آئی آر نمبر26/2013 درمعاملہ اراضی تلہ گنگ، چکوال،ایف آئی آر نمبر27/2013 درمعاملہ اراضی تلہ گنگ، چکوال اور ایف آئی آر نمبر56/2013درمعاملہ دی مال،لاہور میں نامزد ہے۔

اس کے علاوہ آصف آزاد ایف آئی آر نمبر 57/2013 درمعاملہ پاک عرب ہاؤسنگ اسکیم،لاہور،ایف آئی آر نمبر75/2016درمعاملہ ایڈن ہاؤسنگ اسکیم،لاہور اور ایف آئی آر نمبر76/2016درمعاملہ ایڈن ہاؤسنگ اسکیم،لاہور میں نامزد ہے۔آصف آزاد پر ای او بی آئی کے پنشن فنڈ کو اربوں کا نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔ جس کے باعث آصف آزاد،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس کو 23 جولائی 2013کو آفس آرڈر نمبر 256/2013 کے تحت فوری طور پرملازمت سے معطل کیا گیا تھا۔

کم و بیش ڈیڑھ برس تک آصف آزاد اڈیالہ جیل راولپنڈی میں قید رہنے کے بعد اب ضمانت پر ہے جبکہ آصف آزاد، ڈائریکٹر (معطل) کی موجودہ ماہانہ تنخواہ 191,970/-روپے،  زیر استعمال سرکاری گاڑی نمبر  جی پی 8960 بتائی جاتی ہے اور آصف آزاد کو معطلی کے باوجود تنخواہ کے علاوہ ٹی اے ڈی اے، میڈیکل بلز، فیول چارجز، ڈرائیور الاؤنس،، گھریلو ملازم، گاڑی مرمت، رہائشگاہ پر ٹیلی فون، اخبارات اور انٹرٹینمنٹ کی مد میں 21,615/- روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔

 ملزم آصف آزاد اس وقت کے بدعنوان چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل کی خوشنودی کیلئے ای او بی آئی پنشن فنڈ سے ان اراضیوں اور املاک کی مشکوک خریداری کے سلسلہ میں اہم فائلیں اپنے اعلیٰ افسران کے علم میں لائے بغیر بالا ہی بالا اس وقت کے انوسٹمنٹ ایڈوائزر واحد خورشید کنور اور چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے پاس لے جایا کرتا تھا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ اس وقت ای او بی آئی کے ایک دیانتدار اور اصول پرست افسر نے آصف آزاد کی مخالفت کی۔ 

اصول پرست افسر ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، فنانس جناب عبدالمجید نے بدعنوان چیئرمین ظفر اقبال گوندل کے ہر قسم کے دباؤ اور دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ان کے خلاف ضابطہ امور کی سختی سے مخالفت اور مزاحمت کی اور منظوری دینے سے قطعی انکار کر دیا تھا۔ جس کی پاداش میں ظفر اقبال گوندل نے انتقامی کارروائی کرتے ہوئے فرض شناس افسر عبدالمجید کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھ جبکہ عاصمہ عامر، ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد ہیں۔ 

عاصمہ عامر،ڈائریکٹر فنانس ہیڈ آفس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ  یکم دسمبر 2007 کو ای او بی آئی میں بھرتی ہوئیں ۔ عاصمہ عامر کو 31 جولائی 2017 کو بذریعہ آفس آرڈر نمبر 216/2017 ای او بی آئی ریجنل آفس کوٹری کے ایک ریٹائرڈ نائب قاصد ڈوڈو خان کو سپریم کورٹ آف پاکستان، وفاقی محتسب اور ای او بی آئی کی انتظامیہ کے واضح احکامات کے باوجود سنگین حکم عدولی اور پنشن منظور نہ کرنے پر ملازمت سے معطل کیا گیا تھا۔

علاوہ ازیں عاصمہ عامر ای او بی آئی پنشن فنڈ سے بھاری سرمایہ کاری کے نام پر بینک آف پنجاب کے شیئرز کی مشکوک خریداری میں بھی ملوث پائی گئیں اور ان کا کیس نیب لاہور میں زیر تفتیش ہے۔ خاتون افسر،  ڈائریکٹر (فنانس)کی ماہانہ تنخواہ194,493/-روپے بتائی جاتی ہے۔معطلی کے باوجود ماہانہ خطیر تنخواہ کے علاہ ہزاروں کے میڈیکل بلز اور فیول چارجز، ڈرائیور الاؤنس، گھریلو ملازم، گاڑی کی مرمت، اور دیگر مدات میں 36 ہزار 800 روپے ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔

سرکاری گاڑی نمبر جی پی 8997 بھی معطل خاتون افسر عاصمہ عامر کے زیر استعمال ہے جبکہ خاتون ڈائریکٹر فنانس ری کنسیلیشن کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہیں۔ ا ن کی نا اہلی اور سنگین غفلت کے باعث ای او بی آئی کی جانب سے مختلف بینکوں کو ماہانہ پنشن کی تقسیم کی مد میں سالانہ اربوں روپے کی ادائیگی کے بعد ان رقوم کو ری کنسائل نہیں کیا جاسکا جس سے ای او بی آئی فنڈ کے اربوں روپے بینکوں میں طویل عرصے سے پھنسے ہوئے ہیں۔

جن بینکس میں یہ رقوم پھنسی ہوئی ہیں، ان میں یو بی ایل، تعمیر مائیکروفنانس بینک، نیشنل بینک آف پاکستان اور بینک الفلاح شامل ہیں تاہم ای او بی آئی کی انتظامیہ کی اس اہم معاملہ میں مجرمانہ غفلت اور لاپروائی کے باعث غریب محنت کشوں کے پنشن فنڈ کو کروڑوں روپے ماہانہ کا ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔رواں برس 30 اپریل کو اس ضمن میں ای او بی آئی نے نوٹیفکیشن بھی جاری کیا اور ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تاہم پردہ نشینوں کے نام آنے کے باعث رپورٹ خفیہ رکھی جارہی ہے۔

معطل شدہ لیکن بااثر اعلیٰ افسران محمد ایوب خان، آصف آزاد اور عاصمہ عامر کو بعض اعلیٰ افسران کی مکمل حمایت اور سرپرستی کے علاوہ سرکاری دستاویزات تک باآسانی رسائی بھی حاصل ہے جن کی مدد سے مزکورہ معطل افسران نے عدالتوں، ایف آئی اے اور نیب میں ای او بی آئی کے خلاف کئی مقدمات بھی قائم کر رکھے ہیں جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اہم سرکاری دستاویزات کی فوٹو کاپیاں بھی ای او بی آئی کے اخراجات پر کرائی جاتی ہیں۔ کیسز پر ای او بی آئی کو وکیلوں کی بھاری فیسز اور مقدمے کے بھاری اخراجات کا سامنا ہے۔

سابق چیئرمین ای او بی آئی خاقان مرتضیٰ نے تینوں معطل افسران کو باقاعدگی سے دفتر آنے کے واضح احکامات دئیے تاہم ان کے تبادلے کے بعد تینوں معطل افسران نے ماضی کی روش دوبارہ اختیار کر لی۔ محمد اجمل ڈائریکٹر فنانس، ہیڈ آفس کراچی بھی پنشن فنڈ سے بھاری کمیشن کے لالچ میں کراؤن پلازہ، اسلام آباد کی انتہائی زائد قیمت پر خریداری کے کیس میں ملوث پائے گئے جنہیں ایف آئی اے کرائم سرکل راولپنڈی نے مقدمہ نمبر 28/2013 میں شریک ملزم نامزد کیا۔

کیس کی تحقیقات کے دوران مارچ 2013 کو نیسپاک کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2012 میں خریدی گئی عمارت کی مارکیٹ میں قیمت 6 کروڑ 26 لاکھ تھی جسے 1 ارب 5 کروڑ میں خریدا گیا۔ محمد اجمل خان سرمایہ کاری کے نام پر پنشن فنڈ  سے بینک آف پنجاب کے بھاری شیئرز کی مشکوک خریداری میں بھی ملوث رہے جو نیب لاہور میں زیر تفتیش ہے۔ اس کے باوجود انہیںم لازمت سے معطل نہیں کیا گیا، نہ ہی کوئی تادیبی کارروائی عمل میں لائی گئی۔

اس کے برعکس محمد اجمل خان کو انوسٹمنٹ ڈپارٹمنٹ، ہیڈ آفس کراچی میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل (سرمایہ کاری) کے انتہائی کلیدی عہدے پر فائز کردیا گیا۔ معطل اعلیٰ افسران محمد ایوب خان، آصف آزاد اور عاسمہ عامر کی تنخواہیں ہر ماہ بعض مہربان افسران کے تعاون سے بینک اکاؤنٹ میں پہنچ جاتی ہیں۔ ان کے ہمدرد سینئر افسران میں شازیہ رضوی، ڈی جی، ایچ آر، محمد نعیم شوکت، ڈائریکٹر کو آرڈی نیشن، طاہر صدیق چوہدری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر ایچ آر اور دیگر شامل ہیں۔

ہمدرد افسران معطل کیے گئے افسران کی نہ صرف آؤ بھگت کرتے ہیں بلکہ ان کے ہر قسم کے بھاری بلوں کی فوری ادائیگی میں بھی ملوث ہیں جبکہ سجاد احمد، ڈائریکٹر ریجنل ہیڈ، فیصل آباد (ساؤتھ) بدعنوان سابق چیئرمین ای او بی آئی ظفر اقبال گوندل کے ذاتی استعمال کیلئے لگژری گاڑی ٹویوٹا لینڈ کروزر، پراڈو ممنوعہ ہارس پاور 4100 کے تحت خریدنے میں معاونت کے الزام میں ایف آئی اے، راولپنڈی کے درج کیے گئے مقدمہ نمبر 25/2013 میں زیر تفتیش ہیں۔

سجاد احمد کو سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے قریبی عزیزوں سے سستی اراضی مہنگے داموں خریدنے کے الزام میں درج ایف آئی آر میں آصف آزاد اور سجاد احمد کے ہمراہ نامزد ہونے پر آفس آرڈر نمبر 256/2013 کے تحت ملازمت سے معطل کردیا گیا۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خلافِ ضابطہ طور پر ای او بی آئی میں پی اے بھرتی ہوئے جن کی تعلیمی قابلیت ایم اے (پنجابی) جیسی غیر متعلقہ ڈگری ہے تاہم انہیں خلاف ضابطہ ترقیاں دی گئیں۔

خلاف ضابطہ طور پر ای او بی آئی میں بھرتی کیے گئے 400 افسران اور ملازمین میں سے 358 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت 17 مارچ 2014 کو ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ بعض بدنیت افسران نے بھرتی کیے گئے افسران کی فہرست میں ہیرا پھیری کرکے خورشید شاہ کے منظورِ نظر 42 ملازمین کو بچا لیا جو آج بھی جائز و ناجائز سہولیات حاصل کر رہے ہیں جبکہ سجاد احمد اپنے سیاسی اثر رسوخ کی بنیاد پر سلطانی گواہ بن کر مختلف کیسز میں کارروائی سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔

مذکورہ اسکینڈلز کے باعث ای او بی آئی کو اربوں کا نقصان پہنچا۔ اس کے باوجود سجاد احمد نے ای او بی آئی میں اپنی خلافِ ضابطہ بھرتی سے متعلق آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے آڈٹ پیرا کو ختم کرا لیا جو اب ای او بی آئی کے اہم افسر کے طور پر شمار کیے جاتے ہیں جو اگلے گریڈ پر ترقی کیلئے پر تول رہے ہیں۔ غریب محنت کشوں کے فنڈ میں اربوں کی ہیر پھیر ہوئی جو ریجنل آفسز میں دربدر اور مارے مارے پھر رہے ہیں جن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ہر کلیدی عہدے پر چہیتے اور ناتجربہ کار سفارشی افسران تعینات ہیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایچ آر ڈپارٹمنٹ ہیڈ آفس کے افسران بدعنوانی کے مرتکب افسران سے من مانی شرائط پر سودے بازی اور فرمائشیں پوری کروا کر اہم ترین انکوائری کیسز میں چارج شیٹ جاری کرنے اور انکوائری کو کافی عرصے سے التواء میں ڈالے ہوئے ہیں۔ ہر 90 روز بعد معطل شدہ افسران کی معطلی کی مدت میں توسیع دے دی جاتی ہے۔ ای او بی آئی قانون مجریہ 1976 کے تحت ای او بی آئی فلاحی ٹرسٹ ادارہ ہے جس کے افسران 400 ارب کے پنشن فنڈ کے کسٹوڈین اور ٹرسٹی شمار ہوتے ہیں۔

اہم ترین قانونی و اخلاقی ذمہ داری کے باوجود ای او بی آئی انتظامیہ کی سنگین غفلت اور لاپرواہی سے غریب ملازمین اور محنت کشوں کے پنشن فنڈ میں سنگین مالی بدعنونای کے مرتکب معطل افسران گھر بیٹھے باقاعدگی سے بھاری تنخواہیں اور پرکشش مراعات وصول کر رہے ہیں جو ادارے پر ایک بھاری بوجھ بن گئے ہیں۔ یہ لاقانونیت اور بدعنوانیاں وفاقی حکومت، وزارت سمندر پار پاکستانی، ای او بی آئی کے بورڈ آف ٹرسٹریز اور انتظامیہ کیلئے کسی چیلنج سے کم نہیں۔ 

Related Posts