مقبوضہ جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370اے کے اختتام کے بعد نافذ کردہ کرفیو 52 ویں روز میں داخل ہوچکا ہے جبکہ مظلوم کشمیریوں کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی ہے اور مواصلات کا نظام معطل ہے۔
کشمیر میں تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکز مسلسل بند ہیں۔ انتظامیہ کے اصرار کے باوجود والدین نے بچوں کو کرفیو کے نفاذ کے دوران اسکول بھیجنے سے انکار کردیا ہے کیونکہ کشمیری والدین کو بھارتی فوج سے اپنے بچوں کی جان کی حفاظت کی کوئی امید نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا ترک صدر کی طرف سے مسئلۂ کشمیر کی بھرپور حمایت پر اظہارِ تشکر
کشمیری حریت رہنما زیادہ تر قید میں اور گرفتار ہیں یا پھرانہیں نظر بند کر دیا گیا ہے۔ اب تک 343 سیاستدان، میڈیا نمائندگان اور طلبا کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کرکے انہیں بھارت کے علاقے ہریانہ اور اترپردیش کی مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاچکا ہے۔
کشمیر میں موبائل فون، ٹی وی اور انٹرنیٹ سمیت تمام تر ذرائع ابلاغ بدستور معطل ہیں جبکہ قابض بھارتی فوج کی طرف سے وادی میں ٹرانسپورٹ کا نظام بھی مسلسل بند ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق مسلسل 52روز جاری کرفیو کے باعث کشمیری عوام ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں جبکہ بچوں کے لیے دودھ اور عوام کے لیے زندگی بچانے والی ادویات کے ساتھ ساتھ دیگر اشیائے ضروریہ انتہائی قلیل ہیں۔
مظلوم کشمیری عوام کرفیو کے باعث کھانے اور دواؤں سے محروم ہیں جبکہ سری نگر ہسپتال میں طبی ادویات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہر روز کم از کم 6 مریض جاں بحق ہوجاتے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیر اعظم عمران خان کہہ چکے ہیں کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں لاک ڈاؤن اور مسلسل کرفیو اس لیے ہے کہ وہاں مسلمان ہیں، اگر مسلمانوں کی جگہ یورپی، عیسائی یا یہودی ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔ مسلمانوں کے حقوق کے لیے عالمی برادری کا ردِ عمل مایوس کن ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ مسلم ممالک کے لیے بڑا اہم وقت ہے۔ بھارت نے کشمیر میں 80 لاکھ مسلمانوں کو غیر آئینی طور پر قید کر رکھا ہے جبکہ ہندو کشمیریوں کے لیے کوئی کرفیو نہیں۔
مزید پڑھیں: کشمیر میں کرفیو اس لیے ہے کہ وہاں مسلمان ہیں، عیسائی یا یہودی ہوتے تو ایسا نہ ہوتا۔وزیر اعظم عمران خان