مقبوضہ جموں و کشمیر میں نافذ کرفیو 92ویں روز میں داخل ہوچکا ہے جبکہ فوجی محاصرے اور ذرائع مواصلات مکمل طور پر بند ہونے کی وجہ سے نظامِ زندگی بدستور مفلوج ہے۔
کشمیری میڈیا کے مطابق وادی میں انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے اور تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں معاشی و تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی 2 روزہ سرکاری دورے پر ملائشیا پہنچ گئے
کاروباری سرگرمیاں مسلسل معطل ہونے کے باعث ہزاروں کی تعداد میں کشمیری عوام بے روزگار ہوچکے ہیں جبکہ صرف آئی ٹی کے شعبے میں 22 سے 25 پیشہ ور افراد گھر میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔
بھارتی پولیس نے رواں ہفتے جمعے کے روز وادی میں احتجاجی مظاہروں اور پرتشدد واقعات کا اعتراف کیا ہے جبکہ حریت رہنماؤں اور کشمیری جوانوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرکے نظر بند اور قید کر لیا گیا ہے۔
مسلسل3 ماہ سے زائد کرفیو کے باعث مظلوم کشمیری کھانے پینے کی اشیاء، زندگی بچانے والی ادویات اور اشیائے ضروریہ سے محروم ہیں اور وادی میں قحط کی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل پاکستان نے بھارت کی جانب سے جاری سیاسی نقشہ مستردکردیا جس میں متنازعہ جموں وکشمیرکوبھارت کا حصہ دکھایاگیا جبکہ گلگت بلتستان اورآزادکشمیرکومتنازعہ علاقہ دکھایاگیا۔
ترجمان دفترخارجہ نے گزشتہ روز بھارتی بھونڈی کوششوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی قراردیا جبکہ دفتر خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ ہم بھارت کے من گھڑت نقشے کو مسترد کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان نے مقبوضہ و آزادکشمیرسےمتعلق بھارتی سیاسی نقشہ مستردکردیا