پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنی کھوئی ہوئی ساخت کو بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، صوبے میں تو پیپلز پارٹی فتح حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے، مگر پنجاب میں تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کی محاذ آرائی کے درمیان جکڑ چکی ہے، دوسری جانب پیپلز پارٹی اگلے عام انتخابات سے قبل کوئی راستہ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
آصف علی زرداری پورے ہفتے لاہور میں موجود رہے لیکن بظاہر کسی بھی مشہور سیاسی شخصیت کو راضی کرنے میں ناکام رہے،پیپلز پارٹی جانتی ہے کہ اگلی حکومت بنانے کے لئے جنوبی اور وسطی پنجاب پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مگر قسمت زرداری کے ساتھ نہیں تھی کیونکہ وہ بغیر کسی کامیابی کے اسلام آباد واپس آگئے۔ اگلی حکومت بنانے کے لئے زرداری نے مستقبل کے اتحاد کو منانے کا کام اپنے ذمہ لیا ہے، یہ ان لوگوں کو خوش کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جنہوں نے پارٹی چھوڑ دی تھی۔
زرداری کے دورے کی خاص بات پنجاب کے اسپیکر پرویز الٰہی سے ملاقات تھی، مگر پرویز الٰہی کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات وزیر اعظم کے علم میں تھی لیکن دوبارہ سے رابطے کا امکان سیاسی مداخلت کا اشارہ کرسکتا ہے۔ بہرحال، مسلم لیگ ق اور پی ٹی آئی کا اتحاد ضرورت کی بجائے مجبوری ہے اور چودھری برادران اگلے انتخابات سے قبل نئے راستے تلاش کرنے میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔
یہ بھی یقینی ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اگلی حکمران جماعت بننے کا کوئی امکان چاہ رہی ہے تو اس کے لئے پی ڈی ایم کا خاتمہ اور اور مسلم لیگ (ن) کے ساتھ علیحدگی اختیار کرنی ہوگی۔ نواز شریف کی عدم موجودگی سے زرداری کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے، کیونکہ اس با ت کا قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ ن کے سربراہ مستقبل قریب میں بھی بیرون ملک ہی رہیں گے۔ جہانگیر ترین نے بھی تحریک انصاف کے اندر ایک دراڑ ڈال دی ہے، یہ تمام عوامل آئندہ انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کے لئے معاون ثابت ہوں گے۔
پیپلز پارٹی اس وقت ایک متنازعہ حالت کا شکار ہے اور اسے تنظیم نو کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کے دو بڑے رہنماؤں قمر زمان کائرہ اور چوہدری منظور نے بالترتیب وسطی پنجاب کے صدر اور سیکرٹری جنرل کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا،یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ آیا زرداری کا دورہ کامیاب رہا،یا کسی پیشرفت کا باعث بنے گا۔ ابھی، یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پیپلز پارٹی پنجاب میں اپنا کھویا وقار اور عظمت حاصل کرکے پنجاب میں ایک بار پھر مقبولیت حاصل کر سکتی ہے۔