نوجوانوں کا ریاست سے اٹھتا اعتماد

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

ایک خبر کے مطابق پاکستان سے امریکی ویزوں کی طلب بلند ترین سطح پر پہنچنے کی وجہ سے امریکا نے درخواست گزاروں کی اپوائنٹمنٹ کے انتظار کو کم کردیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ ویزا درخواستوں کو جلد نمٹایاجائے گا، چنانچہ اس سلسلے میں امریکی سفارتخانے نے پاکستانی ویزا درخواست گزاروں کےلئے اپوائنٹمنٹ کے انتظار میں کمی کا اعلان کیا ہے۔
امریکی سفارتخانے کی جانب سے ویزا درخواستوں کو جلد نمٹائے جانے کے فیصلے کی یہ اطلاع جہاں ان افراد کیلئے یقینا بڑی”خوشی“ کی خبر ہے، جو اچھے مستقبل اور بہتر معیار زندگی کے سنہرے خواب پلکوں اور آنکھوں میں سجائے امریکی سفارتخانے سے ویزے کی امیدیں باندھے منتظر بیٹھے ہیں، وہاں اسی خبر کا وہ حصہ جس سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان سے امریکی ویزوں کی طلب بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے، وہ آئینہ ہے جس میں پاکستان کے معاشی و سماجی حالات کے جبر و ستم کا عکس ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

اس میں دو رائے نہیں کہ کوئی بھی شخص ہنسی خوشی اپنا گھر باراور اپنا وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا۔ تعلیم، معاش اور روزی روزگار کے ضمن میں بعض ایسے تکلیف دِہ مسائل ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگ اپنے گھروں اور پیاروں کو چھوڑ کر دور دیس کی راہوں کی کٹھنائیاں جھیلتے ہیں۔

تلاش معاش کی تگ و دو میں کوئی برائی نہیں، بلکہ اسلام کی تعلیمات میں حلال رورزی کی تلاش اور حصول ایک اہم فریضہ ہے اور اس فرض کے تقاضوں سے کوئی بھی شخص محنت اور جدوجہد کیے بغیر عہدہ برآ نہیں ہوسکتا۔ اس مقصد کیلئے روئے زمین پر کہیں اور کسی بھی جگہ سفر کرنے میں ممانعت نہیں۔ حلال اور جائز روزی روزگار دنیا میں جہاں کہیں سے بھی میسر آنے کی امید اور توقع ہو، اس کیلئے کوشش کرنی چاہیے، تاہم اس معاملے کو فرد کی ذمے داری اور کوشش کے تقاضوں سے ہٹ کر ریاستوں اور حکومتوں کے فرائض اور ذمے داریوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ سوالات جنم دیتے ہیں، جن پر غور و فکر کرنا ضروری ہے۔
ہیومن ٹریفکنگ ہمیشہ سے دنیا میں موجود رہی ہے، آج بھی انسانوں کی مہاجرت معاصر دنیا کا بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کی کوکھ مصائب اور آلام سے کبھی خالی نہیں رہی ہے۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی دنیا میں وہ افراد بہتر مستقبل کی تلاش میں دوسرے اور مستحکم ملکوں کا سفر کرتے ہیں، جو اپنے ملکوں میں تعلیم اور روزگار کی مطلوبہ سہولت اور انتظام سے محروم ہوتے ہیں۔

ایسے لوگ معاشی طور پر مستحکم، خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کا رخ کرتے ہیں اور وہاں روزگار کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سے نہ صرف یہ لوگ خود مستفید ہوتے ہیں بلکہ ان کے اپنے ملکوں میں اپنے پیاروں کو بھیجے جانے والے پیسوں سے ملک کو بھی فائدہ ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت میں تارکین وطن کی ترسیلات زر کا بڑا حصہ شامل ہوتا ہے۔ اپنے ملک میں ناکافی سہولتوں اور روزگار کے مسائل کی وجہ سے سالانہ بڑی تعدداد میں پاکستانی شہری خلیج، یورپ اور امریکا و کینیڈا کا رخ کرتے ہیں۔ جن میں سے بڑی تعداد ایسی ہوتی ہے جو بیرون ملک پہنچنے کیلئے قانونی ذرائع کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے غیر قانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں جو انتہائی مشکل اور دشوار ہونے کے باعث سال میں کئی بار جان لیوا حادثوں کا باعث بھی بنتے ہیں۔

اس سے انسانی جانوں کا نقصان الگ، ملک کی جگ ہنسائی بھی ہوتی ہے اور سوال اٹھتے ہیں کہ آخر ریاست اپنے شہریوں کو بہتر معیار زندگی فراہم کرنے کی اپنے ذمے داریوں پر توجہ کیوں نہیں دیتی اور کیوں اپنے شہریوں کو روزگار کیلئے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور رکھتی چلی آ رہی ہے؟
بلا شبہ پاکستان سے امریکی ویزوں کی طلب کا بلند ترین سطح پر پہنچنا کوئی فخر، خوشی اور اطمینان کی بات ہرگز نہیں، بلکہ یہ ریاست اور پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔

ایک وقت تھا جب صرف ”برین ڈرین“ یعنی ذہانت کا فرار ایک بڑا مسئلہ تھا۔ ذہین اور قابل افراد ملک میں بہتر مواقع اور مساعد ماحول نہ ہونے کی وجہ سے اپنی قابلیت اور ذہانت سے ملک کوفائدہ پہنچانے کی بجائے بہتر مواقع اور ماحول کی تلاش میں دوسرے ملکوں کا رخ کرتے تھے، مگر اب حالات اس قدر وسیع پیمانے پر خراب، نا مساعد اور انتہائی دگرگوں ہوچکے ہیں کہ اب ہر شخص ہی اپنی بقا اسی میں سمجھ رہا ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے، کسی دوسرے ملک منتقل ہوجائے۔

پاکستانیوں کی بڑی تعداد کا دوسرے ملکوں سے بقا کی امیدیں وابستہ کرنا ریاست پاکستان کیلئے شرم کا مقام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اندرونی نظم و نسق بہتر اور انصاف اور میرٹ کو یقینی بنائے۔

ریاست اور کوئی سہولت دے یا نہ دے، ہر ادارے اور شعبے میں سرایت کرنے جانے والی شدید بے انتظامی، میرٹ کی پامالی اور نظام انصاف کی دگرگونی کا ہی خاتمہ کر ے اور ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنے پر توجہ دے تو دیگر بہت سے مسائل کے ساتھ آبادی کے فرار کی اس شرمناک صورتحال کو بھی بڑی حد تک قابو کیا جا سکتا ہے۔

یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ عوام بالخصوص قوم کی نوجوان طاقت میں اپنی ریاست کے تئیں اس قدر شدید مایوسی پھیل چکی ہے کہ اب یہاں نوجوانوں کی اکثریت اپنا مستقبل تاریک ہی دیکھتی ہے اور امید کی روشنی پانے کیلئے اجنبی دیس کی طرف دیکھنے پر مجبور ہے۔ ریاست کو یہ معاملہ بہت سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا اور نوجوانوں کی اعتماد سازی کیلئے ضروری اقدامات کرنا ہوں گے۔

Related Posts