عورت مارچ نے حقیقی مسائل کو پس پشت تو نہیں ڈال دیا؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

عورت مارچ نے حقیقی مسائل کو پس پشت تو نہیں ڈال دیا؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

رب ذولجلال نے مرد کے ساتھ عورت کو اعلیٰ مرتبہ عطا فرمایا ہے،عورت ایک ایسی ذات ہے جس کے بغیر یہ معاشرہ نہیں چل سکتا، حقیقت تویہ ہے کہ کائنات کی تمام رعنائیاں اور دلفریبی وجود زن سے ہی ہے لیکن ان دنوں پاکستان میں ایک بار پھر خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ کے حوالے سے ملک میں بحث شروع ہوچکی ہے۔کچھ حلقے عورت مارچ کے حق میں ہیں تو کچھ مخالفت کررہے ہیں۔عورت کو اپنے حقوق کیلئے بالکل آواز اٹھانی چاہیے لیکن گزشتہ سال ہونیوالے عورت مارچ نے فیمینزم کو ایک عجیب وغریب چیز بنا کر پیش کیا ہے۔

عورت مارچ ہے کیا ؟
گزشتہ سال پاکستان میں پہلی بار مختلف شہروں میں ’عورت مارچ‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں خواتین ونوجوان لڑکیوں کے علاوہ مردوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی تھی،مارچ کے شرکاء نے منفرد نعروں پرمبنی بینر اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے ،رواں سال بھی ملک کے تمام شہروں میں خواتین نے عورت مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے کیلئے عورت مارچ کے منتظمین کی جانب سے تیاریاں جاری ہیں تاہم عورت مارچ کے اراکین کی جانب سے لاہور میں لگائےجانیوالے پوسٹرز پھاڑے جارنے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔

مارچ پر پابندی کی درخواست
لاہور ہائی کورٹ نے 8 مارچ کو ہونیوالے عورت مارچ کو رکوانے کیلئے دائر درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین سے جواب طلب کرلیاہے، ایف آئی اے کے ڈپٹی آئی جی آپریشنز اور وزارت داخلہ سے 27 فروری تک جواب طلب کیاگیا ہے، جوڈیشل ایکٹیوزم کونسل کے چیئرمین اظہر صدیقی نے آئندہ ماہ منعقدہ عورت مارچ کے خلاف درخواست دائر کرتے ہوئے عدالت سے عورت مارچ روکنے کی استدعا کی تھی، درخواست گزار کاموقف ہے کہ عورت مارچ کو ملک میں انتشار اور عریانیت پھیلانے کیلئے ریاست مخالف تنظیمیں فنڈز فراہم کر رہی ہیں۔

وجہ تنازعہ
پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور یہاں احتجاج کرنا اور اپنے حقوق کیلئے ریلیاں نکالنا معمول کی بات ہے لیکن گزشتہ سال ہونیوالے عورت مارچ میں میرا جسم میری مرضی، کھانا گرم نہیں کرتی، کتے بن جاو،میں بدچلن میں آوارہ، طلاق دو، بیٹھنے اٹھنے سے متعلق اور دیگر ایسی بے معنی باتوں کو موضوع بنایا گیا جس سے معاشرے نے انتہائی سنجیدہ لیے ہوئے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے عورت مارچ کو بیرونی عناصر کی سازش قرار دیا۔

حامیوں کی رائے
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن طاہرہ عبداللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں فیمینزم کو ’گالی سمجھا جاتا ہے‘اس لیئے خواتین خود کو فیمینسٹ کہنے سے ہچکچاتی ہیں ۔ان کاکہنا ہے کہ پاکستان کے نصاب میں آج بھی کسی خاتون ہیرو کا ذکر نہیں اورحکومت اکثر خواتین کی خدمات کو نظر انداز کرتی ہے۔
سماجی کارکن نگہت داد ،میڈیا سے وابستہ لالین سکھارا ،اداکارہ ثانیہ سعید ،جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین ،کامیڈین علی گل پیر سمیت عورت مارچ کے دیگر حامیوں کا کہنا ہے کہ ہم آج اس مسئلے پرآواز اٹھا ئیں گے توہماری آنے والی نسلوں کو یہ نہیں کرنا پڑے گا،خواتین کوانصاف نہ ملنے کی وجہ ہم ایسے مارچ کرتے رہیں گے۔

فیمینزم آخر ہے کیا؟
فیمینزم کوئی بیماری نہیں بلکہ ایک نظریہ ہے ،فیمینزم کا آغاز 1785 میں یورپ سے ہوا،لیڈی میری والٹرلے اور میرکوئیس ڈی حقوق نسواں کے نام سے شروع کی گئی تحریک کے بانیوں میں سرفہرست تھیں۔ عورتوں کی تنخواہ مردوں کے برابر کرنا، جنسی ہراسانی ، جنسی تشدد، پیداواری حقوق، زچگی کیلئے چھٹیاں جیسے مسائل حقوق نسواں کے تحفظ کیلئے بننے والی اس تنظیم کے بنیادی مطالبات تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ اس تحریک نے زور پکڑااور یورپ و امریکا میں خواتین کے حقوق کو تسلیم کر لیا گیااور آج دنیا کے کئی ممالک میں خواتین کو برابری کے حقوق حاصل ہے جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان عورتوں کے استحصال کا سلسلہ جاری ہے تاہم گزشتہ سال ہونیوالے عورت مارچ کے بعد منفی فیمینزم کے تصور کو سامنے رکھا جائے تو لگتا ہے کہ عورت کا وجود کہیں دور رہ گیا ہے۔

عورت مارچ کا مثبت پہلو
گزشتہ سال عورت مارچ میں متنازعہ مطالبات کے علاوہ کچھ ایسے مطالبات بھی تھے جو حقیقت سے تعلق رکھتے ہیں جن میں امن، صحت، تعلیم، صاف، پانی، زیادتیوں کی روک تھام، بیٹیوں کو یکساں تعلیم، گھریلو تشدداور جہیزکیخلاف بھی مطالبات بھی شامل تھے تاہم متنازعہ بینرز نے معاشرے کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال دیا۔
عورت کو روایات کے کھونٹے سے باندھ کر رکھنا کسی طور پر درست نہیں  اورعورت کو امور خانہ داری تک محدود نہیں رہنا چاہیے، خواتین کوتعلیم ، صحت ودیگر حقوق بھی ملنے چاہئیں  ، ہراساں کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ملازمت کے مواقع ملنے چاہئیں اور ان کو برابر کا انسان تسلیم کرنا چاہیے، اگر عورتوں کو ان کے حقوق ملیں گے تو ان کو سڑکوں پر آنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

Related Posts