وطنِ عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان جمہوریہ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا جس کا ثبوت ہمیں پاکستانی پاسپورٹ پر بھی نظر آتا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر لکھا ہے: یہ پاسپورٹ اسرائیل کے علاوہ دنیا کے ہر ملک میں کار آمد ہے۔
مسئلۂ کشمیر پر پاکستان کا کھل کر ساتھ دینے والےبرادر اسلامی ملک ترکی نے اسرائیل کو بہت پہلے تسلیم کر لیا تھا۔ ترکی نے 1949ء میں آج ہی کے روز یعنی 29 مارچ کو اسرائیل کو تسلیم کیا۔
سوال یہ ہے کہ ہم اسرائیل کو کیوں تسلیم نہیں کرتے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ جبکہ امریکا اور اسرائیل تعلقات کے پیشِ نظر عالمی منطر نامے پر اسرائیل کی اہمیت بے حد واضح ہو چکی ہے۔
اسرائیل کا جغرافیہ اور مسلم ممالک
بحیرۂ روم کے جنوب مشرقی ساحل پر واقع یہودی جمہوریہ اسرائیل کے شمال میں لبنان، مشرق میں اُردن، جنوب مشرق و جنوب مشرق میں فلسطین، شمال مشرق میں شام اور جنوب میں مصر واقع ہے۔
اس کے علاوہ خلیجِ عقبہ اور بحیرۂ احمر بھی اسرائیل کی سرحد سے متصل ہیں۔دیکھا جائے تو یہودی جمہوری اسرائیل چاروں طرف سے اسلامی ممالک سے گھرا ہوا ہے۔
یہودی جمہوریہ اسرائیل کی دیگر معلومات
29 نومبر 1947ء کو اقوامِ متحدہ نے فلسطین کی تقسیم کا منصوبہ منظور کیا جبکہ اگلے برس 14 مئی کو ڈیود بن گوریان نے یہودی جمہوریہ اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا۔ ڈیوڈ بن گوریان کو ہی اس ملک کا پہلا وزیرِ اعظم بنایا گیا۔
تقسیمِ فلسطین دراصل یروشلم یا بیت المقدس پر قبضے کا اعلان تھا جس کے خلاف مسلم ممالک اٹھ کھڑے ہوئے اور 15 مئی کو یعنی ملک کے قیام کے اعلان کے اگلے روز ہی کئی مسلمان ملکوں نے اسرائیل پر حملہ کردیا۔
یہودی جمہوریہ اسرائیل میں بسنے والے عوام میں فلسطینی، یہودی، بدو اور دیگر متعدد اقوام شامل ہیں۔ سن 2014 کے اعدادوشمار کے مطابق اسرائیل میں 81 لاکھ 46 ہزار 300 نفوس بستے ہیں جن میں سے 61 لاکھ سے زائد یہودی ہیں۔
دنیا بھر میں یہودی آبادی تقریباً ڈیڑھ سے 2 کروڑ بنتی ہے جسے موجودہ اسرائیلی حکام مقبوضہ فلسطین اور اسرائیل میں لا کر بسانا چاہتے ہیں تاکہ بیت المقدس اور مسجدِ اقصیٰ پر قبضہ کرکے یہاں ہیکلِ سلیمانی کی تعمیر کی جاسکے۔
ہیکلِ سلیمانی یعنی ٹیمپل آف سلیمان سے مراد یہودی عبادت گاہ سمجھ لیجئے جو یہودی آسمانی کتاب یعنی زبور کی پیش گوئیوں کے حوالے سے عین اسی جگہ تعمیر ہونی ہے جہاں اِس وقت بیت المقدس موجود ہے۔
یہی وہ بڑا مسئلہ ہے جس کے باعث فلسطینیوں کو بے گھر کرکے وہاں یہودی بستیاں بسائی جا رہی ہیں اور مسلم ممالک مذہبی عوامل اور عقائد کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے اور مسلم عوام اسرائیل کے خلاف غم و غصے کے جذبات رکھتے ہیں۔
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک
یہودی جمہوریہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان اکیلا نہیں ہے۔ بہت سے مسلم ممالک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے جس کی وجہ بیت المقدس اور فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔
ہماراہمسایہ ملک بھارت اسرائیل کا حلیف ہے۔ افغانستان اسرائیلی پاسپورٹ کو تسلیم کرتا ہے اور غیرسرکاری سطح پر دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہیں۔
الجیریا اسرائیلی پاسپورٹ کوتسلیم نہیں کرتا۔ بحرین میں اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کے تعلقات پر پابندی عائد ہے۔
سابقہ مشرقی پاکستان یعنی بنگلہ دیش کے اسرائیل سے تعلقات بالکل ویسے ہیں جیسے پاکستان کے ہیں یعنی بنگلہ دیشی پاسپورٹ بھی اسرائیل میں کار آمد نہیں، نہ ہی بنگلہ دیش یا پاکستان اسرائیلی پاسپورٹ کو تسلیم کرتے ہیں۔
یہی حال برونائی درالسلام کا ہے۔ انڈونیشیا میں داخل ہونے کے لیے اسرائیلی اعلیٰ حکام کو بھی پاسپورٹ کی بجائے خصوصی حکومتی اجازت کی ضرورت پیش آتی ہے۔
ہمسایہ و برادر اسلامی ملک ایران اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے، تاہم ایران اسرائیلی پاسپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا جبکہ ایرانی پاسپورٹ کے حامل افراد کو اسرائیل یا مقبوضہ فلسطین میں سفر کی اجازت نہیں۔
کویت بھی اسرائیلی پاسپورٹس تسلیم نہیں کرتا۔ لبنان کا بھی یہی حال ہے۔ لیبیا، ملائشیا، قطر، سعودی عرب، سوڈان، شام اور یمن سمیت متعدد اسلامی ممالک اسرائیل یا اسرائیلی پاسپورٹ تسلیم نہیں کرتے۔
اسرائیل کی اسلام دشمنی
دُنیا بھر میں مسلم ممالک کی تعداد تقریبا50 ہے جبکہ اسرائیل پوری دُنیا میں وہ واحد ملک ہے جو یہودیوں کی نمائندگی کرتا ہے اور خود کو یہودی جمہوریہ اسرائیل کہتا ہے۔
اسرائیل کی اسلام دشمنی صرف مقبوضہ فلسطین پر قبضے سے عیاں نہیں ہوتی، بلکہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر بھارت کا قبضہ اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کو پاک بھارت جنگ پر اُکسانا بھی اسرائیل کی اسلام دشمنی کے متعدد ثبوتوں میں سے ایک ہیں۔
امریکا اسرائیل گٹھ جوڑ
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ مقبوضہ فلسطین کو یہودی جمہوریہ اسرائیل بنانے اور یہودیوں کو پوری دنیا سے لا کر اور فلسطینیوں کو ان کے آبا و اجداد کی جاگیروں سے بے دخل کرنے کے پیچھے یہودی طاقتوں کے ساتھ ساتھ امریکا کا بھی ہاتھ رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ڈیل آف دی سنچری کے نام سے فلسطین کی تقسیم کا ایک نیا منصوبہ پیش کیا جسے فلسطینی قیادت اورآزادئ فلسطین کی جدوجہد کرنے والی تحریک حماس نے مسترد کردیا۔
اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی وجوہات
مقبوضہ جموں و کشمیر کی جدوجہدِ آزادی اور مقبوضہ فلسطین کی تحریکِ آزادی میں کچھ زیادہ فرق نہیں ہے۔ جموں و کشمیر میں بھارتی درندوں نے خون کے دریا بہا دئیے جبکہ یہودیوں نے فلسطین میں مسلمانوں کو چن چن کر شہید کردیا۔
آزادی کی تحریکیں ہمیشہ سے خون کی قربانی مانگتی رہی ہیں۔ پاکستان ایسے ہی آزاد نہیں ہوا تھا۔ مسلمانوں نے جان و مال اور عزت و آبرو تک کو قربان کیا، تب کہیں جا کر آزادی کا منہ دیکھنا نصیب ہوا، سو اس تحریک میں مختلف بات آج بھی کچھ نہیں ہے۔
کشمیر اور فلسطین میں جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی جدوجہدِ آزادی کا خمیازہ ہے جو کشمیری و فلسطینی عوام بھگت رہے ہیں، تاہم مذہبی عقائد کی بات اس سے بھی بڑی ہوجاتی ہے۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کا یہ متفقہ بیانیہ ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر ناجائز قبضہ کیا ہے۔ مسلمانوں کا قبلۂ اوّل بیت المقدس کہلاتا ہے جس پر اسرائیل قبضہ کرکے بیٹھا ہے۔
اس لیے پاکستان سمیت کسی بھی مسلم ملک کے عوام اسرائیل کو دل سے کبھی تسلیم نہیں کرسکتے۔ سرکاری پالیسیوں اور سفارتی مجبوریوں کے باعث بعض اسلامی ممالک نے اسرائیل کو تسلیم تو کر لیا ہے، تاہم اس حوالے سے وہاں کے عوام میں آج بھی غم و غصہ پایا جاتا ہے۔