پاکستان تنہا کیوں نظر آتا ہے ؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہماری سیاست میں پچھلے کچھ سالوں سے ایک نئی روایت چل پڑی ہے۔ ایک بہت ہی بری روایت۔ اور وہ یہ کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے ہمنوا اب برسر اقتدار حکومت پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ پاکستان “عالمی تنہائی” کا شکار ہوگیا ہے۔ اس روایت کا آغاز پی ٹی آئی نے اپنی 2014ء سے شروع ہونے والی مہم سے کیا تھا۔ اور اب نون لیگ بھی اس پر عمل پیرا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں وہ صحافی اور تجزیہ کار بھی پیش پیش نظر آتے ہیں جو صحافی کم اور پیدا گیر زیادہ ہیں۔ یہ کوئی سربستہ راز نہیں کہ جب کوئی صحافی “ممتاز صحافی” والی کٹیگری تک پہنچ جائے تو صحافت اس کے لئے پیدا گیری کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

اس مقصد کے لئے وہ اقتدار میں آنے والی بڑی جماعتوں میں سے کسی ایک کا حامی بن جاتا ہے۔ اور اس جماعت کے کسی رہنماء سے بھی زیادہ اس جماعت کے لئے پروپیگنڈے کی خدمات انجام دینا شروع کر دیتا ہے۔

وہ نہ صرف اپنی حمایت یافتہ جماعت کے قائد کی وہ وہ خوبیاں بیان کرتا نظر آتا ہے جن سے وہ قائد خود بھی واقف نہیں ہوتا بلکہ مخالف جماعت کی قیادت پر وہ وہ بہتان بھی باندھنے لگتا ہے کہ جن کا نشانہ بننے والا قائد بھی چونک اٹھتا ہے کہ میں نے یہ واردات بھی بھی کر رکھی ہے اور خود میں ہی واقف نہیں ؟۔

بعض تو ایسے ہیں جو فوجی سربراہوں کو مسکے لگانے کو صحافت باور کراتے ہیں۔ آپ پاکستان آرمی کے پچھلے چار سربراہوں کی تقرری کے بعد والے ایک ماہ کے اخبارات ہی پڑھ لیجئے۔ آپ کو بخوبی اندازہ ہوجائے گا کہ کن کا ذکر چل رہا ہے۔ یہ ہر نئے آرمی چیف کی ایسی نت نئی خوبیاں بیان کرتے پائے جاتے ہیں کہ قاری کو یقین ہو چلتا ہے کہ بس کشمیر تو اب آزاد ہوکر ہی رہے گا۔ سمجھداری تو ان مسکے بازوں پر ختم ہے۔

نئے آرمی چیف کا اعلان کوئی غیر متوقع عمل نہیں ہوتا۔ ایک دو ماہ قبل ہی یہ بحث چل نکلتی ہے کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا ؟ چنانچہ اس مدت میں مسکے باز سب سے پہلے یہ بحث چھیڑ دیتے ہیں کہ سینئر موسٹ چار پانچ جرنیل کون کونسے ہیں ؟ اور وہ اس وقت کن پوزیشنز پر ہیں۔ پھر جلد ہی اعلان ہوجاتا ہے فلاں فلاں تین نام وزیر اعظم کو بھیجے گئے ہیں تو بحث سینئر موسٹ کی جگہ ان تین ناموں تک سکڑ آتی ہے۔

اس پورے بحث مباحثے کے دوران حرام ہے جو یہ کسی ایک کی بھی مافوق الفطرت خوبیاں بیان کرتے ہوں۔ ان مواقع پر “سب ہی پروفیشنل اور بہت قابل ہیں” ان کا تکیہ کلام بن جاتا ہے۔ یہ نہ تو کسی ایک کی حیران کن خوبیاں بیان کرتے ہیں اور نہ ہی سب کی۔

 جوں ہی ان میں سے ایک کے اگلے آرمی چیف ہونے کا اعلان ہوجائے، یہ نہ صرف اس کی بے مثال خوبیاں ترانے لکھنا اور گانا شروع کر دیتے ہیں بلکہ ساتھ ہی پہلی بار یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ بھیجے گئے تین ناموں میں سے یہی صاحب آرمی چیف بننے کے سب سے زیادہ اہل تھے اور ساتھ ہی اچانک باقی دو کی کچھ خامیاں بھی انہیں یاد آجاتی ہیں۔

یہ خامیاں پہلے اس لئے یاد نہیں آتیں کیونکہ خوبیوں کی طرح خامیاں بھی من گھڑت ہوتی ہیں۔ جن کی اب خامیاں گنوائی جا رہی ہوتی ہیں یہی اگر آرمی چیف بن جاتے تو جملہ خوبیاں بلا شبہ انہی کے لئے وقف ہوتیں اور جو آرمی چیف بننے میں کامیاب گیا ہے اس کی طرف خامیاں منسوب کی جاتیں۔

اس باب میں ہماری صحافت ایسی بابرکت ہے کہ بحمدللہ وہ ہستی اس وقت بھی زندہ ہیں جنہوں 35 سال قبل دو پلاٹوں کے عوض اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی پر کتاب لکھ ڈالی تھی اور کمال دیکھئے کہ جنرل ضیاء کے حکم پر اسی ڈی جی سے زبردستی چارج لینے والے اگلے ڈی جی آئی ایس آئی کو بھی یہی خدمات آفر کردیں۔ مگر انہوں نے انہیں بعد از ریٹائرمنٹ اپنا گھوسٹ رائٹر رکھ لیا۔

اپنے ڈرائینگ روم یا دفتر میں بٹھا کر وہ بولتے اور یہ اس بول کو نثر کا جامہ پہناتے۔ یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں۔ جو عرض کیا جا رہا ہے، چشم دید ہے۔ ممکن ہے آپ سوچیں کہ کوئی کسی ریٹائرڈ جرنیل کا قلمی اردلی بننا کیوں پسند کرے گا ؟ تو بات کچھ یوں ہے کہ یہ جو ڈی جی آئی ایس آئی ہوتے ہیں، سب کی پروفائل پڑھ چکے ہوتے ہیں۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کس کی کیا اوقات ہے۔

اس کی بالکل مخالف جانب واقع جمہوری گلیاروں کا نظارہ کیجئے تو وہاں آپ کو کچھ ایسے صحافی ملیں گے جو دکھتے تو صحافیوں کی طرح ہیں، چلتے بھی صحافیوں کی طرح ہیں، لیکن بولتے یا لکھتے صحافیوں کی طرح نہیں ہیں۔

یعنی اس کیس میں ہم ایک ایسے وجود کا نظارہ کر رہے ہوتے ہیں جو دکھتا تو بطخ کی طرح ہے، چلتا بھی بطخ کی طرح ہے لیکن بولتا بطخ کی طرح نہیں۔ سو مخمصہ رہتا ہے کہ اس بطخ کو صحافی مانا جائے یا سیاسی لیڈر ؟ مثلاً آج کل ایک نام کا ایک مخصوص حلقے میں بڑا شہرہ ہے کہ جمہوریت اور آزادی اظہار کے لئے بڑی قربانی دے رہے ہیں۔ کوئی بائیس سال ہوتے ہیں جب ان سے پوچھا تھاکہ

جنرل حمید گل آپ کو سخت ناپسند کیوں کرتے ہیں ؟
جواب کچھ یوں ملا تھا

جب جنرل حمید گل کو آئی ایس آئی سے ہٹانے کا فیصلہ ہوا تو اس اجلاس میں چار لوگ تھے۔ ایک وزیر اعظم محترمہ بینظیر بھٹو، دوسرے جنرل نصیر اللہ بابر، تیسرے اس وقت کے وزیر دفاع کرنل غلام سرور چیمہ اور چوتھا میں۔ چونکہ خطرہ ری ایکشن کا تھا۔

سو طے یہ پایا کہ مقررہ دن پر وزیر اعظم ترکی کے دورے پر نکل جائیں گی۔ پیچھے نوٹیفکیشن ہوجائے گا جسے بریکنگ نیوز کے طور پر صحافیوں میں پھیلانا میری ذمہ داری تھی تاکہ کوئی سرکاری افسر اس پھیلاؤ میں ضرورت سے زیادہ سرگرم نظر نہ آئے۔ اور سرکاری دفاتر کی حد تک یہ معمول کی تبدیلی نظر آئے۔ خبر کے پھیلاؤ میں سرگرم بس ایک صحافی نظر آئے جو ایک فطری عمل ہوتا ہے۔

یہ دعویٰ کتنا درست ہے اور کتنا جھوٹ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ لیکن اگر یہ بالکل درست ہے، واقعتاً ایسا ہی ہوا تھا تو ایک ڈی جی آئی ایس آئی کو ہٹائے جانے کے لئے ہونے والے انتہائی محدود پیمانے کے خفیہ سرکاری اجلاس میں صحافی کا کیا کام ؟ وہ اسکیم بنانے میں کیسے شریک ہوسکتا ہے ؟ ڈی جی آئی ایس آئی کو ہٹانا تو وزیر اعظم کا حق ہے۔ وہ سیدھے سادے طریقے سے اپنا یہ حق استعمال کرنے کے بجائے “خفیہ اسکیم” کی راہ کیوں اختیار کرتا ہے ؟ اگر کوئی ری ایکشن ہوگا بھی تو جھیلا جائے۔ نہیں جھیل سکتے تو اقتدار لیا کیوں ؟۔

تاریخ میں تو رسوائی ری ایکشن والے کے حصے میں آئے گی تو آپ کیوں ڈرتے ہیں ؟ عجیب بات نہیں کہ ایک صحافی کو سرکاری سرگرمی میں شریک کیا جاتا ہے اور وہ بھی ایسی سرگرمی جس کا تعلق ایک ہائی رینکنگ فوجی افسر سے ہے۔ کیا اس طرح کی سرگرمیوں سے سول ملٹری تعلقات کو فائدہ پہنچے گا ؟ نہیں، اس سے تعلقات کشیدہ ہی ہوسکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا بھی۔ انہی موصوف کو رائیونڈ میں ایک درخت کے ساتھ بھی باندھ دیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ اپنی قائد محترمہ بینظیر بھٹو کے کہنے پر نواز شریف کے زیر تعمیر جاتی امرا کی مشکوک انداز سے تصاویر لیتے پکڑے گئے تھے۔

تب یہ “ممتاز صحافی” والے مقام پر نہ تھے سو مزدور جانتے نہ تھے۔ انہوں نے پکڑ کر درخت سے باندھ دیا اور اوپر اطلاع کردی۔ جب پتہ چلا کہ یہ موصوف ہیں تو اخبار کے مالک سے پوچھا گیا کہ بغیر بتائے اس طرح تصایر لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ بتا کر کرتے، وہ کوئی ممنوعہ علاقہ تو نہیں کہ تصاویر نہیں لی جاسکتیں۔

مالک نے چیف رپورٹر سے پوچھا تو جواب ملا کہ میں نے تو یہ اسائنمنٹ انہیں دی ہی نہیں۔ نتیجہ برطرفی کی صورت نکلا۔ لیکن یہ موصوف اپنی برطرفی اصل وجہ کبھی نہیں بتاتے۔ بس اتنا بتاتے ہیں کہ نواز شریف کے کہنے پر نکالا گیا۔ یوں سننے یا پڑھنے والا از خود فرض کر لیتا ہے کہ کسی جمہوری خدمت کی سزا دی گئی ہوگی۔

یہ ایک دو واقعات تو بطور مثال بیان کئے گئے ورنہ یہاں ٹھیکے اور ٹینڈر ہی نہیں بلکہ پارٹی کے لئے گراں قدر خدمات انجام دینے والے صحافیوں کو تو اب پرائڈ آف پرفارمنس بھی ملنے لگے ہیں۔ اور ان میں سے جو ایسی خدمات انجام دینے کی شہرت رکھتے ہوں جو خدمات کسی نہ کسی واسطے سے فوج کے خلاف ہوں تو انہیں عالمی اعزازات بھی مل جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اس ملک کی تاریخ میں ایسے بہت سے صحافی گزرے ہیں جو واقعتاً پیشہ صحافت کے ماتھے کا جھومر ہیں۔ ان کا نام ہماری صحافتی تاریخ میں امر ہوچکا ہے اور امر ہی رہے گا۔ یہ عالمی اعزازات ان کے نصیب میں کیوں نہ آسکے ؟ ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ امر ہونے والے صحافیوں نے صاف ستھری صحافت کی ہے۔ ان کی صاف ستھری صحافت سے عالمی اعزازات بانٹنے والوں کے اغراض و مقاصد کبھی پورے نہیں ہوئے۔ یہ اعزازات بٹنے کا معیار تو یہ ہے کہ سوویت یونین کا بیڑا غرق کرنے والے میخائیل گورباچوف کو نوبیل پیس پرائز مل جاتا ہے۔

اب اس طرح کے لوگوں کو جب عتاب کا نشانہ بننا پڑ جائے یا ایسی حکومت آجائے جس کے دور میں ان کے ذاتی مفادات کی سپلائی لائن منقطع ہوجائے تو انہیں پاکستان تنہا ہوتا نظر آنا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ایک دن پوچھتے ہیں ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم کے لئے گرم جوشی کیوں دکھائی ؟ اس نے ضرور امریکی مفادات کے لئے سازباز کی ہوگی اور دوسرے دن کہتے ہیں جو بائیڈن ہمارے وزیر اعظم کے لئے سرگرمی کیوں نہیں دکھا رہا ؟ اسے فون کیوں نہیں کر رہا ؟ یعنی امریکی صدر سرگرمی دکھا دے تب بھی وزیر اعظم کی خیر نہیں، اور صدرِ امریکہ گرم جوشی نہ دکھائے تو بھی وزیر اعظم کی شامت۔

31 سال تو صحافت کے کوچوں میں ہمیں بھی ہوچلے۔ مگر جس درجے کی دوغلی صحافت اب دیکھ رہے ہیں۔ وہ پہلے کبھی نہ دیکھی۔ پاکستان صرف ان دوغلوں کو ہی تنہاء ہوتا نظر آرہا ہے۔ جس دن ان کے مفادات کی سپلائی لائن بحال ہوگئی،

انہیں پاکستان بھی تنہائی سے نکلتا نظر آنا شروع ہوجائے گا۔ دکھ کی بات بس یہ ہے کہ اب ذاتی مفادات کے لئے حکومت نہیں بلکہ ملک کو ہی نشانے پر رکھ لیا گیا ہے۔ انہیں نا پسندیدہ وزیر اعظم نہیں بلکہ وطن تنہائی کا شکار نظر آتا ہے۔

Related Posts